فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کی غیر مشروط معافی قبول، توہین عدالت کا نوٹس واپس

Jun 28, 2024 | 11:00:AM
فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کی غیر مشروط معافی قبول، توہین عدالت کا نوٹس واپس
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: 24نیوز
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں سینیٹر فیصل واوڈا اور رہنما ایم کیو ایم مصطفیٰ کمال کی غیر مشروط معافی قبول کرتے ہوئے توہین عدالت کا نوٹس بھی واپس لے لیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس نعیم افغان پر مشتمل 3 رکنی بنچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، فیصل واڈا اور مصطفیٰ کمال ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوگئے,سماعت کے آغاز پر مصطفیٰ کمال کے وکیل فروغ نسیم نے دلائل دیئے کہ مصطفیٰ کمال نے غیر مشروط معافی مانگی ہے، اب پریس کانفرنس میں بھی ندامت کا اظہار کر چکے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے فیصل واوڈا سے دریافت کیا کہ آپ کے وکیل نہیں آئے؟ کیا آپ نے بھی معافی مانگی ہے؟ جس پر فیصل واوڈا نے جواب دیا کہ جی میں نے بھی معافی مانگی ہے,اس موقع پر ٹی وی چینلز کی جانب سے فیصل صدیقی ایڈووکیٹ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے مؤکل کہاں ہیں؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ 26 چینل کی جانب سے میں وکیل ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے کسی کلائنٹ نے ابھی تک کوئی جواب جمع نہیں کرایا,چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کسی ایک میڈیا کی جانب سے بھی تحریری جواب جمع نہیں کرایا گیا، اس پر وکیل نے بتایا کہ میڈیا اداروں کو شوکاز نوٹسز نہیں تھے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دریافت کیا کہ کیا آپ میڈیا اداروں کو شوکاز کرانا چاہتے ہیں؟ جسٹس عقیل عباسی کا کہنا تھا کہ کم از کم میڈیا اداروں کے کسی ذمہ دار افسر کا دستخط شدہ جواب جمع ہونا چاہیے تھا,چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ آپ نے عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا، وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ تمام چینلز کے نمائندگان عدالت میں موجود ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ لیکن چینلز کی جانب سے جواب جمع نہیں کرایا گیا ہے، وکیل فیصل صدیقی نے کہا میں تحریری جواب جمع کروا چکا ہوں۔

اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ جواب پر دستخط وکیل کے ہیں، توہین عدالت کیس میں دستخط چینلز کے ہونا لازمی ہیں، وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ شوکاز نوٹس ہوتا تو جواب چینلز کے دستخط سے جمع ہوتا۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو آئین پسند نہیں؟ میں سمجھا آپ آئین سے بات کا آغاز کریں گے، کوئی کسی کو چور ڈاکو کہے اور میڈیا کہے ہم نے صرف رپورٹنگ کی ہے کیا یہ درست ہے؟ کیا ایسے آزاد میڈیا کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں؟ آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے دو الگ الگ چیزیں ہیں، کیا توہین آمیز مواد چلانا توہین عدالت نہیں۔

اس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ فریڈم آف پریس کی وضاحت 200 سال سے کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ 200 سال سے کیوں، 1400 سال سے کیوں شروع نہیں کرتے، آپ کو 1400 سال پسند نہیں؟ 200 کا ذکر اس لئے کر رہے ہیں کہ تب امریکا آزاد ہوا؟

وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میں 200 سال کی بات اس لئے کر رہا ہوں کہ ماڈرن آئین کی ابتدا تب ہوئی، اس پر چیف جسٹس نے فیصل صدیقی کو آئین کا دیباچہ پڑھنے کی ہدایت کر دی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بسمہ اللہ الرحمن الرحیم سے آغاز ہو رہا ہے آئین کا، اس میں کہاں ماڈرن ایج کا ذکر ہے؟ کس قانون میں لکھا ہے آپ نے پریس کانفرس لائیو ہی دکھانا تھی، سارا دھندا پیسے کا ہے، ایمان، نیت، اخلاق و تہذیب کا نہیں، ایسا بھی نہیں ہوا کہ ایک بار غلط بات آنے پر پریس کانفرنس کو کاٹ دیا ہو، اب فریڈم آف ایکسپریشن کے تحت بتائیں اس پریس کانفرنس سے کتنے پیسے کمائے ہیں؟

وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ میں کلائنٹس سے ہدایات لے لیتا ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ایک ایک سے بلا کر پوچھ لیتے ہیں۔

اسی کے ساتھ نجی ٹی وی کے ڈائریکٹر نیوز رانا جواد روسٹرم پر آگئے,چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دریافت کیا کہ آپ نے کتنی بار وہ پریس کانفرنس چلائی کتنے پیسے بنائے؟ رانا جواد نے بتایا کہ 11، 12 بلیٹن میں وہ پریس کانفرنس چلی، پیسوں کا نہیں پتا میں صرف ایڈیٹوریل دیکھتا ہوں فنانس نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فیصل صدیقی اس جواب پر آپ کے دستخط ہیں، ہم آپ کو بھی توہین عدالت کا نوٹس دے سکتے ہیں، وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ میں اس جواب کی مکمل ذمہ داری لیتا ہوں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے خود کہا کہ کم از کم ایک پریس کانفرنس تو توہین آمیز تھی، فیصل صدیقی نے بتایا کہ میں نے بادی النظر میں توہین کہا تھا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے ایسا کچھ نہیں کہا ایسا مت کریں، فیصل صدیقی نے بتایا کہ میں نے کہا تھا بادی النظر میں توہین ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ نے جواب میں لکھا ہے آپ پریس کانفرنس میں کہی گئی باتوں سے متفق نہیں، پریس کانفرنس نشر کرتے وقت آپ نے ساتھ یہ لکھا تھا؟ آپ وہ بات جواب میں کیوں لکھ رہے ہیں جو کی نہیں، پریس کانفرنس کرنے والے دونوں نے آ کر کم ازکم کہا کہ غلطی ہوئی، ہم بھی اپنی غلطی مانتے ہیں آپ نہیں مانتے، آپ نے جواب میں کہا آپ کی ڈیوٹی ہے پریس کانفرنس کوور کرنا، پاگل خانے میں کوئی پاگل پریس کانفرنس کرے وہ کوور کرنا آپ کی ڈیوٹی ہے؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیئے کہ پریس کانفرنس کرنے والے کہہ رہے ہیں ان سے غلطی ہوگئی، آپ مگر کہہ رہے ہیں کہ آپ کا فرض ہے یہ دکھائیں گے، جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ کوئی بھی شخص آ کر کہہ دے میں عوام کا نمائندہ ہوں آپ اسے نشر کریں گے؟,چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جو باتیں کر رہے ہیں وہ کہاں سے کر رہے ہیں؟ پیمرا سے یا کسی بین الاقوامی کنونشن سے دکھائیں، وکیل نے کہا کہ حقائق اور سچ میں فرق ہوتا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ میں آج آپ سے نئی بات سیکھوں گا، وکیل نے جواب دیا کہ میں کہاں آپ کو کچھ بھی سکھا سکتا ہوں، سچ کا تناظر وسیع ہوتا ہے,جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آپ ہمارے سامنے کھڑے ہیں یہ حقیقت ہے یا سچ؟ آپ تو بال کی کھال اتارنے جیسی بات کر رہے ہیں، صدیقی صاحب وکیل نے اپنے کلائنٹ کا مفاد دیکھنا ہوتا ہے۔

وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ میں چینلز کے دستخط والا جواب جمع کرا دوں گا جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ یہ بڑے احسان والی بات ہوگی نا، ہم آپ کو موقع نہیں دیں گے، ہمیں نہ بتائیں ہم نے کیا کرنا ہے۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل روسٹرم پر آ گئے,چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا وکیل ٹی وی چینلز کی جانب سے جواب پر دستخط کر سکتا ہے؟جسٹس عقیل عباسی نے دریافت کیا کہ چینلز کے کنڈکٹ پر آپ کی کیا رائے ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں اپنی رائے دینے میں محتاط رہوں گا کیونکہ کارروائی آگے بڑھی تو مجھے پراسیکیوٹر بننا ہوگا۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پھر ایسی بات نہ کریں جس سے کیس متاثر ہو، جتنا بڑا آدمی ہوتا ہے اس کی ذمہ داری بھی اتنی ہی ہوتی ہے، چینلز کا مؤقف ہے کہ پریس کانفرنس نشر کرنا بدنیتی پر مبنی نہیں تھا۔

اسی کے ساتھ عدالت نے سماعت میں مختصر وقفہ کر دیا۔

واضح رہے کہ عدالت نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو ذاتی حیثیت میں طلب کر رکھا تھا، عدالت نے تمام نیوز چینلز سے دو ہفتوں میں جواب جمع کرانے کا حکم دے رکھا ہے، گزشتہ سماعت پر عدالت نے مصطفیٰ کمال کی فوری معافی کی استدعا مسترد کر دی تھی، فیصل واوڈا نے بھی اپنے دوسرے جواب میں سپریم کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی۔

اپنے جواب میں فیصل واوڈا نے غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے خود کو سپریم کورٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، فیصل واوڈا نے عدالت سے نوٹسز واپس لینے کی استدعا کر رکھی ہے۔

اس سے قبل فیصل واوڈا نے توہین عدالت کیس میں جواب جمع کراتے ہوئے معافی مانگنے سے انکار کیا تھا، سینیٹر فیصل واوڈا نے 15 مئی کو اسلام آباد پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران عدلیہ پر تنقید کی تھی۔