(امانت کشگوری) چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے، حکومت اخراجات کم کر کے 20 ارب نکال سکتی ہے، 20 ارب کا کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جاسکتا ہے، 5 فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی لارجر بنچ میں شامل ہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ امید ہے آپ کی معاونت سے مستفید ہونگے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کے انتخابات ملتوی کرنے کے اختیار کو دیکھ رہے ہیں، سیاسی جماعتوں کو نوٹس کرنے کا معاملہ بعد میں دیکھیں گے، تحریک انصاف کے وکیل اور اٹارنی جنرل کو سنیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری درخواست ہے کہ سیاسی ماحول بہتر کیا جائے، موجودہ سیاسی ماحول بہت خراب ہے، اس سماعت کو بہت لٹکانا نہیں چاہتے، کل کے حکم نامے کے مطابق الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو دیکھنا ہے، رول آف لاء اور جمہوریت ایک سکے کے دو رخ ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی پارہ بہت اوپر ہے، گزشتہ روز یہ درخواست کی تھی کہ سیاسی جماعتیں یقین دہانی کرائیں، سپریم کورٹ اچھی نیت کیساتھ کیس سن رہی ہے، فریقین نے فیصلہ کرنا ہے کہ حالات کو کس طرف لیکر جاتے ہیں، عدالت نے حقیقت کو دیکھ کر آگے بڑھنا ہے، عدالت ملک اور عوام میں ڈسپلن چاہتی ہے۔
اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان نے گزشتہ روز کے ججز کے اختلافی فیصلے کا حوالہ دیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ قانون نے صدر مملکت کو الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار دیا ہے، عدالت کا یکم مارچ کا فیصلہ اس وقت موجود ہے، انتخابات کا اعلان صدر مملکت کرچکے تھے، عدالت میں جو کاروائی ہوئی تھی وہ تاریخ مقرر کرنے کی نہیں بلکہ جو تاریخ مسترد کی گئی تھی اس پر تھی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ جمہوریت حکومت کا ایک ایسا نظام ہے جس سے نظام چلایا جاتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلہ اگر چار تین کا ہوا تو کسی حکم کا وجود ہی نہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی، عدالتی حکم نہیں تھا تو صدر مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے۔
اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کر لیا جائے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت مقدمہ تاریخ دینے کا نہیں منسوخ کرنے کا ہے، جمہوریت کیلئے انتخابات ضروری ہیں، تکنیکی بنیادوں پر معاملہ خراب نہ کریں۔
چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوچکا ہے، اس معاملے کو دوبارہ اٹھا کر عدالت میں پیش نہ کیا جائے، ہم ہائیکورٹ کے حکم کیخلاف اپیل نہیں سن رہے، پارلیمنٹ کی پریکٹس کو موجودہ کیس میں نہیں دیکھ رہے، کچھ بھی ہو یہ کیس باقی معاملات سے مختلف ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ موجوددہ درخواست کے قابل سماعت ہونے کو بھی دیکھا جائے۔ جسٹس جمال خان نے کہا کہ عدالت یہ دیکھ رہی ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فیصلہ کتنی اکثریت کا ہے اس کا جائزہ بعد میں لیا جا سکتا ہے۔
سماعت کے دوران اٹانی جنرل نے نقطہ اٹھایا کہ موجودہ کیس میں استدعا ہی فیصلے پر عملدرآمد کی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ بنچ کے ارکان درخواست میں اٹھائے گئے سوال کا جائزہ لینے بیٹھے ہیں، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار درخواست تک محدود نہیں ہوتا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ درخواست ہے کہ یہ اہم معاملہ ہے اور بنچ اگر مناسب سمجھے تو فل کورٹ بنا دے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یکم مارچ کا عدالتی فیصلہ کتنے ارکان کا ہے یہ سپریم کورٹ کا اندرونی معاملہ ہے، یہ بتائیں کہ کیا 90 روز میں انتخابات کرانا آئینی تقاضا نہیں ہے ؟ کیا الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ منسوخ کر سکتا ہے ؟ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ معاملہ کلیئر کرنے پر جسٹس جمال مندوخیل کا مشکور ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ لوگ آٹے کیلئے لائنوں میں لگے ہوئے ہیں، تحریک انصاف اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ملکی حالات کو بہتر کیا جائے، تمام قومی اداروں کا احترام لازمی ہے۔ چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی اعلی قیادت سے بھی ایسے رویے کی توقع ہے۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے اپنی سیاسی قیادت سے بات کی ؟ پی ٹی آئی کو پہل کرنی ہوگی کیونکہ عدالت سے رجوع انہوں نے کیا ہے، ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے، آپس میں دست و گریبان ہونے کے بجائے لوگوں کا سوچیں۔
وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ انتخابات میں تاخیر ہوئی تو یہ بحران مزید بڑھے گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن 90 دنوں کے اندر الیکشن شیڈول دینے کا پابند ہے۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایک بار تاریخ کا اعلان کر دے تو واپس نہیں لے سکتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بدقسمتی سے کسی کو کوئی شک نہیں کہ 90 دنوں میں انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے، ایک سوال یہ ہے کہ کیا اس معاملے کو جمہوری طریقے سے حل نہیں کیا جاسکتا تھا؟۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ آئین انتخابات کے بنیادی حق میں کسی تاخیر کی اجازت نہیں دیتا، ماضی قریب میں الیکشن میں تاخیر کیلئے کوششیں کی گئیں، الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ ہم تاریخ نہیں دے سکتے گورنر کہتا ہے کہ تاریخ دینا میرا اختیار ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اس عدالت کے حکم پر عملدرآمد ہوچکا ہے اس بنا پر الیکشن شیڈول دیا گیا۔
جسٹس امین الدین خان نے پوچھا کہ کیا الیکشن شیڈول 90 دن سے کم کیا جاسکتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس 90 دن کے اندر شیڈول ایڈجسٹ کرنے کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن بظاہر نوے دن سے زیادہ تاخیر نہیں کرسکتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کی ہمارے ملک میں کوئی پرواہ نہیں کرتا، الیکشن تو ہر صورت ہونے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اب 90 دن سے زیادہ تاریح کون بڑھائے گا ؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایک بندے کی خواہش پر اسمبلی تحلیل ہونی چاہیے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیراعلی منتحب نمائندے ہوتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر وزیراعظم کی اپنی جماعت عدم اعتماد لانا چاہے تو اسمبلی ٹوٹ سکتی ہے۔ جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد آجائے تو اسمبلی تحلیل نہیں ہو سکتی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا پارلیمنٹ کو اس معاملے کو نہیں دیکھنا چاہیے۔ جس پر پی ٹی آئی وکیل علی طفر نے کہا کہ وزیر اعظم اور وزیراعلی کے اختیار پر پارلیمنٹ بحث کرسکتی ہے، عدالتی احکامات پر عملدرآمد پنجاب کی حد تک ہوا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کے پاس تاریخ کا تعین کرنے کا اختیار ہے، کیا الیکشن کمیشن صدر کی تاریخ کو تبدیل کر سکتا ہے، الیکشن کمیشن کے پاس کونسا قانونی اختیار ہے جس کی بنیاد پر نئی تاریخ کا اعلان کیا ؟ جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس ایسا کوئی قانونی سہارا نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے عدالت میں انتخابات کرانے کی یقین دہائی کرائی تھی، الیکشن کمیشن اپنی یقین دہانی کے برعکس تاریخ کیسے تبدیل کر سکتا ہے، الیکشن کمیشن کو کوئی مسئلہ درپیش تھا تو عدالت کو آکر بتاتے، الیکشن کمیشن اگر انتخابات نہ کرائے اور حکومت کہہ دے کہ ہم تیار ہیں پھر کیا ہوگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 انتحابات منسوح کرنے کی اجازت نہیں دیتا، 2008 میں انتحابات تاخیر کا شکار ہوئے تھے۔ وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آئین کے دو آرٹیکلز کا سہارا لیا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے وجوہات بتا کر کہا آئینی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہیں، اگر الیکشن کمیشن آٹھ اکتوبر کی تاریخ نہ دیتا تو کیا ہوتا ؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن تاریح تبدیل کرنے کیلئے صدر سے رجوع کرسکتا تھا، تمام انتظامی ادارے الیکشن کمیشن سے تعاون کے پابند ہیں، وجوہات ٹھوس ہوں تو ہی الیکشن کمیشن رجوع کرسکتا ہے۔
پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل 220 تمام حکومتوں اور اداروں کو کمیشن سے تعاون کا پابند کرتا ہے، الیکشن کمیشن نے صرف اداروں سے موقف لے کر فیصلہ لکھ دیا، عدالت الیکشن کمیشن سے پوچھے کہ آئینی اختیار استعمال کیوں نہیں کیا، انتظامی ادارے تعاون نہ کریں تو آرٹیکل 5 کا اطلاق ہوگا، الیکشن کمیشن کے مطابق آرٹیکل 254 الیکشن منسوخ کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ الیکشن کی تاریخ پہلے ہی 90 دن کے بعد کی تھی، کیا 90 دن کے بعد کی تاریخ درست تھی ؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ اب بھی عدالت حکم دے تو 90 دن میں الیکشن نہیں ہو سکتا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ صدر نے بھی الیکشن کی تاریخ 90 دن کے بعد کی دی، آرٹیکل 254 کا سہارا کام ہونے کے بعد لیا جا سکتا ہے پہلے نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عملی طور پر الیکشن 90 دن میں ممکن نہ ہوں تو عدالت حکم دے سکتی ہے۔ جسٹس منیب نے کہا کہ ایک اسمبلی کے شیڈول کے دوران دوسری اسمبلی تحلیل ہو جائے تو ایک ہی دن انتخابات کیلئے رجوع کیا جا سکتا ہے، الیکشن کمیشن ازخود ایسا حکم جاری نہیں کر سکتا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن چھ ماہ الیکشن آگے کر سکتا ہے تو دو سال بھی کر سکے گا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ انتخابات آگے کون لے جا سکتا ہے یہاں آئین خاموش ہے، کیا پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم نہیں کرنی چاہیئے۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ ترمیم کر لے تو یہ سب سے اچھا ہوگا، سوال یہ ہے کہ ترمیم ہونے تک جو انتخابات ہونے ہیں ان کا کیا ہوگا۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ جس بنیاد پر الیکشن ملتوی ہوئے اس طرح تو کبھی الیکشن نہیں ہو سکتے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر فنڈز کا معاملہ ہے تو نگراں حکومت فنڈز کیسے دے گی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جو مسائل آج ہیں وہ 8 اکتوبر کو کیسے نہیں ہوں گے؟۔
جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ ان انتخابات پر کتںنا خرچہ آ رہا ہے ؟ جس پر حکام الیکشن کمیشن نے کہا کہ ان انتخابات پر 20 ارب سے زائد کا خرچہ آئیگا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میں نے وزیر خزانہ کا ایک بیان پڑھا جس میں کہا گیا فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ میں 500 ارب جمع ہوئے ہیں، یہ فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ کہاں پڑا ہوتا ہے ؟ 500 ارب کی ٹیکس وصولی میں سے 20 ارب کا خرچہ نکالا جاسکتا ہے۔
پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ اس کا جواب وزارت خزانہ والے دے سکتے ہیں، الیکشن کمیشن کو وزارت خزانہ نے فنڈز کی فراہمی سے انکار کر دیا۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ انکار وزارت خزانہ کیسے کرسکتی ہے؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کچھ فنانشل اسپیس پیدا کر کے نیشنل کاز کیلئے رقم استعمال کی جائے تو کیا ہوگا، اس نیشنل کاز کیلئے جو لوگ تنخواہیں لے رہے ہیں ان پر کٹ لگایا جاسکتا ہے، اگر تنخواہوں پر کٹ لگایا جائے تو انتخابات کا اہم ٹاسک مکمل کیا جاسکتا ہے، لیکن اس سب پر جواب وزارت خزانہ ہی دے سکتی ہے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کے مطابق سیکرٹری خزانہ نے کہا فنڈز دینا مشکل ہوگا، وزارت خزانہ نے مشکل کہا تھا انکار نہیں کیا تھا۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ سیکرٹری خزانہ نے تو کہا الیکشن کیلئے فنڈز نہ ابھی ہیں نہ آگے ہوں گے، اس کا مطلب ہے کہ الیکشن تو ہوں گے ہی نہیں، حکومت کا کوئی سیکرٹری ایسا بیان کیسے دے سکتا ہے، ٹیکس جمع ہو کر فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ میں جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ علی ظفر آپ عدالت کو معاملے کی اہمیت کے بارے میں بتائیں، ترکی میں الیکشن کا اعلان کر دیا گیا سوائے ان علاقوں کے جہاں زلزلہ آیا، آئین کی شقوں میں موجود ہے کہ خراب ترین صورتحال میں انتخابات ملتوی ہوسکتے ہیں، کیا اس وقت ایسی ایمرجسنی کی صورتحال ہے کہ انتخابات نہ ہوں۔ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ایسے ایمرجنسی کے حالات نہیں کہ انتخابات ملتوی کئے جائیں۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ کے اخراجات پارلیمنٹ کی منظوری سے خرچ ہوتے ہیں۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر اسمبلی تحلیل ہوجائے تو کیا فنڈ جاری ہی نہیں ہو سکیں گے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ موجودہ کیس میں قومی اسمبلی موجود ہے، نئی اسمبلی اخراجات کی منظوری دیتی ہے، سیکرٹری خزانہ کے بیان کا جواب الیکشن کمیشن ہی دے گا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیکرٹری خزانہ منظور کردہ بجٹ سے ہٹ کر فنڈ کیسے دے سکتا ہے۔
وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ یہ تکنیکی نقطہ ہے کے پیسے کہاں سے آنے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کیلئے پورے بجٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے، 20 ارب کا کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جاسکتا ہے، حکومت اخراجات کم کر کے بیس ارب نکال سکتی ہے، ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے، معاشی بحران کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، بحران سے نمٹنے کیلئے قربانی دینا ہوتی ہے۔
چیف جسٹس عمر بندیال نے کہا کہ پانچ فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے، خیبرپختونخوا میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سب سے زیادہ آپریشن کیے، پنجاب میں اب تک صرف 61 آپریشن ہوئے، سندھ میں 367 جبکہ خیبرپختونخوا میں 1245 آپریشن ہوئے، پنجاب کی صورتحال خیبرپختونخوا سے مختلف ہے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ بھی کہتا ہے کہ جہاں مسئلہ ہو وہاں پولنگ منسوخ ہو سکتی ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ پورا الیکشن ملتوی کر دیا جائے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایمرجنسی میں ہی الیکشن ملتوی کیے جا سکتے ہیں، کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ ایمرجنسی نافذ کرنے کی بات کرتا ہے۔ جس پر علی ظفر نے جواب دیا کہ ''ابسلوٹلی ناٹ''
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ابسلوٹلی ناٹ تو آپ نے کسی اور کو کہا تھا۔ چیف جسٹس کے ریمارکس پر عدالت میں قہقے لگ گئے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل پی ٹی آئی وکیل سے استفسار کیا کہ ہم حکم دے دیں تو کیا الیکشن ہوگا۔ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن تو ہر صورت ہونا ہے، خود الیکشن کمیشن نے پہلے شیڈول دیا پھر اسے منسوخ کر دیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا بجٹ میں انتحابات کیلئے فنڈز مختص ہیں، اگر فنڈز نہیں ہیں تو فنڈز لینے کا طریقہ کار آئین میں درج ہے۔
وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ سال چیف الیکشن کمشنر نے بتایا تھا کہ نومبر 2022 میں الیکشن کیلئے تیار ہیں، اب الیکشن کمیشن اچانک کہتا ہے فنڈز نہیں ہیں، فنڈز نہ ہونا الیکشن ملتوی کرنے کا کوئی بہانہ نہیں، الیکشن کمیشن کے مطابق انتحابی عملہ موجود ہے، سیکیورٹی اہلکاروں کی عدم دستیابی کا ذکر کیا گیا، پولیس نفری کم ہونے کا بہانہ تو ہمیشہ رہے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ میرے سابق چیف جسٹس کو قتل کر دیا گیا، کیا یہ ٹھوس وجہ نہیں ہے۔ جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ ایسی بھی وجہ نہیں ہے الیکشن نہ کروائے جائیں، کیا نگران حکومت نفری دینے سے انکار کرسکتی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے وہ اختیار استعمال کیا جو اسکا تھا ہی نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن ہائیکورٹ سے بھی رجوع کرسکتا تھا۔ جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کا حکم تھا تو معاملہ یہیں آنا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین واضح ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہائیکورٹ نے کروانا ہے۔ اس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ معاملہ دو صوبوں کا ہے ایک ہائیکورٹ عمل نہیں کروا سکتی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہائیکورٹ سپریم کورٹ کے احکامات کو تبدیل نہیں کر سکتی۔
وکیل علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے مناسب ہوگا سپریم کورٹ خود کیس سنے۔ جسٹس امین الدین خان نے پوچھا کہ کیا الیکشن کمیشن انتظامی اداروں کیخلاف خود کاروائی کر سکتا ہے۔ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن اداروں کو ہدایات جاری کر سکتا ہے، ادارے عملدرآمد نہ کریں تو عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے، الیکشن کمیشن نے عدالت کو کہا تھا وہ تاریخ مقرر نہیں کر سکتے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے بعد میں آٹھ اکتوبر کی تاریخ کیسے دی۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن اکتوبر میں پھر کہہ دے کہ حالات ٹھیک نہیں تو کیا الیکشن جنوری تک جا سکتے ہیں، عدالت فیصلہ کرے تو آئی ایم ایف اور دوست ممالک خوش ہوں گے، قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں، غیر آئنی اقدام کیخلاف عدالت ہی آخری دیوار ہے، آئین کا پہلا اصول اسلام دوسرا جہموریت ہے، جہموریت انتحابات سے ہی ہوتی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ سیکشن 58 کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس الیکشن ایکٹ پر عملدرآمد کیلئے ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن اپنا حکم واپس لے کر کہے کوئی مدد نہیں کر رہا تو کیا ہوگا ؟ اپنی مشکلات حل کروانے کے لیے کمیشن کو عدالت ہی آنا ہوگا۔
پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل مکمل کرلئے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے بال وفاقی حکومت کی کورٹ میں پھینکی ہے، جواب بالاخر وفاقی حکومت کو ہی دینا ہوگا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا حکم نامہ چیلنج کیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے اضافی دستاویزات کیلئے سپریم کورٹ سے وقت مانگا اور کہا کہ جو اجلاس ہوئے ان کے منٹس پیش کرنا چاہتے ہیں، کل تک وقت دیں۔ جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ کل تک وقت نہیں دے سکتے، آپ دلائل کا آغاز کریں کل دوبارہ موقع دے دیں گے۔
ن لیگ کے وکیل اکرم شیخ عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ عدالت نے سیاسی جماعتوں کو بھی سننے کا کہا تھا، عدالت فریق بنائے اور تحریری جواب کے بغیر کیسے سن سکتی ہے ؟ جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ پہلے قانونی نکات طے ہو جائیں پھر آپ کو بھی موقع دینگے۔
وقفہ سماعت کے بعد اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صرف پنجاب کی حد تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کیا گیا ہے، گورنر کے پی کا معاملہ سپریم کورٹ میں الگ سے چیلنچ ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کا دفاع اس کے وکلاء کریں گے، حکومت سے فنڈز اور سیکورٹی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پولنگ اسٹیشنز پر فوج تعیناتی کا مطالبہ کیا گیا تھا، فنڈز کے حوالے سے کل سیکرٹری خزانہ سے معلومات لے کر تفصیل دوں گا، آئی ایم ایف پروگرام کے تحت 170 ارب حکومت نے وصول کرنے تھے، اضافی وصولی کیلئے ضمنی بجٹ دیا گیا، جو معلومات ابھی دے رہا ہوں وہ میری سمجھ کے مطابق ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا مزید اقدامات کر کے 20 ارب اضافی نہیں لیے جا سکتے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اضافی ٹیکس لگانے سے عوام کو مزید مشکلات ہوں گی۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ حکومت نے تخمینہ 170 ارب سے زیادہ کا ہی لگایا ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 30 جون تک 170 ارب روپے وصول کرنے کا ہدف ہے، آئی ایم ایف کا مطالبہ تھا کہ شرح سود میں اضافہ کیا جائے، شرح سود میں اضافے سے مقامی قرضوں میں اضافہ ہوا۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا 20 ارب روپے جمع کرنا حکومت کیلئے مشکل کام ہے ؟ کیا عام انتحابات کی کوئی اہمیت نہیں ہے ؟ صوبوں کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے بچانا وفاق کی آئینی ذمہ داری ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹھارہوں ترمیم کے بعد وفاق غریب اور صوبے امیر ہوئے ہیں، معاشی صورتحال سے کل آگاہ کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے کہا تھا الگ الگ الیکشن کروانے کے پیسے نہیں ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکرٹری خزانہ نے الیکشن کمیشن کے بیان پر کہا تھا انہوں نے ایسا کہا ہوگا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ معاملہ ترجیحات کا ہے، لیپ ٹاپ کیلئے دس ارب روپے نکل سکتے ہیں تو الیکشن کیلئے بیس ارب کیوں نہیں۔ فواد چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ ترقیاتی منصوبوں کیلئے بھی اراکین کو فنڈز دیے گئے ہیں۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اراکین کو فنڈز دینا عدالتی حکم کی بھی خلاف ورزی ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے ہدایت لے کر آگاہ کروں گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ الیکشن کیلئے فنڈز دینا صوبے کی ذمہ داری ہے یا وفاق کی ؟۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 245 کے تحت حکومت انتخابات کی ڈیوٹی کیلئے فوج کو پابند کر سکتی ہے، انتخابات پر خرچے والی بات تو سمجھ آتی ہے کہ الگ الگ کرانے سے زیادہ پیسے لگیں گے، فوج کی سیکیورٹی نہ دینے والی بات مجھے سمجھ نہیں آتی، آئین کے تحت فوج کی ذمہ داری ہے کہ الیکشن کے دوران ڈیوٹی کریں۔
جسٹس جمال خان نے کہا کہ اگر دوبارہ بھی اسمبلی توڑ دی جائے تو سب کی ذمہ داری ہے کہ فرائض انجام دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فوج کو انتظامات کرنے میں وقت لگتا ہے اور اپنی پوزیشنز بھی تبدیل کرنا پڑتی ہے، دہشت گردی کے دوران بھی انتخابات ہوئے ہیں جس کی سب سے زیادہ قیمت سیاستدانوں نے چکائی۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا ترقیاتی فنڈز کے اعلان کے وقت آئی ایم ایف کی شرائط نہیں تھیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ترقیاتی فنڈ والی بات شاید پانچ ماہ پرانی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کیلئے فنڈز فراہم کرنا وفاق کی ذمہ داری ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین کے تحت سپلمنٹری گرانٹ جاری کی جاسکتی ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مسئلہ آئینی اختیار کا نہیں وسائل کی کمی کا ہے، وزرات دفاع نے کہا سیکورٹی حالات کیوجہ سے فوج فراہم نہیں کرسکتے۔
جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا گارنٹی ہے اکتوبر میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہوسکتا ہے الیکشن کمیشن نے سوچا ہو تمام اسمبلیوں کی مدت اکتوبر میں مکمل ہوجائے گی۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ شہداء اسی دھرتی کے سپوت ہیں، اس سے زیادہ کوئی کیا کرسکتا ہے کہ اپنی جان کی قربانی دے، افواج کے خاندانوں کا حوصلہ ہے کہ اپنے بچوں کو مورچوں میں بھیجتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فوج کی نقل و حرکت پر بھی اخراجات ہوتے ہیں، کیا یہ ایسا مسئلہ ہے جسے حل نہیں کیا جاسکتا، دہشتگردی کا مسئلہ نوے کی دہائی سے ہے، کیا نوے کی دہائی میں الیکشن نہیں ہوئے، کئی سیاسی لیڈرز کی جانیں قربان ہوئیں، پیپلزپارٹی کی سربراہ کی شہادت بڑا سانحہ تھا، ان تمام حالات کے باوجود انتحابات ہوتے رہے ہیں۔
جسٹس مینب اختر نے کہا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ قوم دہشتگردوں کے ہاتھوں یرغمال ہے، کیا یہ پھر بنانا ریپبلک بن گیا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ دوسری جنگ عظیم میں بھی انتحابات ہوئے تھے۔
اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ 1988 میں انتحابات اگست میں ہونا تھے، جنرل ضیاء کی وفات کے بعد الیکشن نومبر میں ہوئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ 1988 میں الکشن کی نئی تاریخ کا اعلان کس نے کیا تھا۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ قائم مقام صدر نے الیکشن کی نئی تاریخ کا اعلان کیا تھا، 1988 میں بھی فنڈز کا معاملہ سپریم کورٹ میں آیا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئین و قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ بدلنے کا کوئی اختیار نہیں، یہ بات باکل واضح ہے کہ انتحابات کی تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کرنا چاہیے تھا۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئینی اختیار استعمال کرنے میں سوال ہو تو معاملہ عدالت ہی آتا ہے، اس سوال کا بہتر جواب الیکشن کمیشن کے وکیل دے سکتے ہیں، 2008 میں الیکشن کمیشن نے انتخابات کی نئی تاریخ خود دی تھی، کسی جماعت نے الیکشن کی نئی تاریخ کو چیلنج نہیں کیا تھا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ محترمہ کی شہادت الیکشن ملتوی کرنے کی بڑی وجہ تھی۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس وقت کی سیاسی قیادت نے اعلی ظرفی کا مظاہرہ کیا تھا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں الیکشن کمیشن کو تیار رہنا چاہیئے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ چیف الیکشن کمشنر نے خود کہا تھا کہ چار ماہ میں الیکشن کروا سکتے ہیں۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملک کے اس وقت کے حالات اور اب کے حالات میں فرق ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ حکومت چلانا الیکشن کمیشن کا کام نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن وہی وجہ بتا سکتا ہے جو اس کے حکم میں لکھی ہوئی ہے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کو مردم شماری سے بھی آگاہ کروں گا، مردم شماری ابھی بھی جاری ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مردم شماری کے بعد چار ماہ حلقہ بندیوں میں بھی لگتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سرکاری عملہ مردم شماری میں مصروف ہے، مردم شماری کے بعد نشستوں کا تناسب بدل جاتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا مردم شماری کے دوران الیکشن نہیں ہو سکتے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جس مردم شماری کے نتائج شائع ہو چکے ہوں اس کی بنیاد پر ہی الیکشن ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ اگر مردم شماری کے دوران قومی اسمبلی تحلیل ہوگئی تو کیا ہوگا، کیا نگران حکومت مردم شماری کے نتائج شائع کر سکتی ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ 30 اپریل کو مردم شماری مکمل ہونی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ گزشتہ مردم شماری کے نتائج آنے میں کئی سال لگے تھے، آپ پر بھروسہ کیسے کریں کہ نتائج تاخیر سے شائع نہیں کریں گے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں، آئین کے تحت 90 دن میں الیکشن ہونا ہے، مشترکہ مفادات کونسل جو بھی کرے کیا الیکشن کی آئینی مدت آگے ہو سکتی ہے، آئینی طور پر مشترکہ مفادات کونسل کا الیکشن سے کوئی تعلق نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مردم شماری کا اثر پنجاب اور کے پی میں قومی اسمبلی کے الیکشن پر پڑے گا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ صوبوں میں قومی اسمبلی کے الیکشن کا نئی حلقہ بندیوں پر کیا اثر پڑے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 2017 سے ایک سیاسی جماعت مردم شماری پر اعتراض کر رہی ہے، عوام کی نمائندگی میں شفافیت ہونی چاہیئے، پہلی بار عدالت الیکشن ملتوی کرنے کی وجوہات کا جائزہ لے رہی ہے، اصل صورتحال یہ ہے کہ اتنے لمبے عرصے کیلئے الیکشن ملتوی کیسے کئے جاسکتے ہیں، بےنظیر بھٹو کی شہادت پر الیکشن صرف چالیس دن آگے ہوئے تھے، احتجاج کے باعث الیکشن کمیشن کے دفاتر نذر آتش کر دیئے گئے تھے، الیکشن کیلئے سیاسی پختگی کی ضرورت ہے، سیاسی میچورٹی پر بھی ہدایات لے کر آئیں، سندھ میں ٹرین پر سفر کیا ہر جگہ سیلاب تھا، بلوچستان میں کئی جگہ ٹرین پیدل چلنے والوں کی رفتار سے چلتی ہے، کوئٹہ ابھی تک ریلوے لائن سے منسلک نہیں ہوسکا، جہاں نکل و حرکت مشکل ہو وہاں الیکشن ملتوی ہوسکتے ہیں، الیکشن کمیشن کا فیصلہ جلدی بازی میں لکھا گیا۔
سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی۔