سنگین غداری کیس،مارشل لاء کی توثیق کرنے والے ججز کا احتساب ہونا چاہیے، سپریم کورٹ
Stay tuned with 24 News HD Android App
(امانت گشکوری)سپریم کورٹ میں پرویز مشرف کوسزا سنانےوالی خصوصی عدالت غیرآئینی قرار دینےکیخلاف کیس میں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ان ججزکا احتساب ہونا چاہیے جنہوں نے 3 نومبر کے مارشل لاء کی توثیق کی، تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا یہ بھی بتائیں کہ کتنے صحافی مارشل لاء کے حامی کتنے مخالف تھے؟
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پرویز مشرف کی سزا کے خلاف اپیل اور لاہور ہائی کورٹ فیصلے کیخلاف اپیلوں پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس کی سربراہی میں چار رکنی بینچ نے سماعت کی،خصوصی عدالت کو غیر قانونی قرار دینے والے لاہور ہائی کورٹ فیصلے کے خلاف حامد خان دلائل کیلئے پیش ہوئے۔ پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر عدالت میں پیش ہوئے، حامد خان نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف تحریری دلائل جمع کرا دیئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے دلائل مکمل ہوگئے ہیں۔ اب ہم تحریری معروضات کا جائزہ لے لیں گے،پاکستان بار کونسل کی جانب سے ہارون الرشید نے دلائل دیئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں خصوصی عدالت کے فیصلے کا ذکر کیا؟ کیا کہیں ذکر ہے کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے؟ ایسا نہیں تو پھر خصوصی عدالت کا فیصلہ تو آن فیلڈ ہی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے جب فیصلہ دیا تو کیا خصوصی عدالت فیصلہ سنا چکی تھی۔ لاہور ہائیکورٹ نے جب خصوصی عدالت کے فیصلے پر کچھ نہیں کہا تو اکیڈمک مشق کی کیا ضرورت تھی؟
چیف جسٹس نے پاکستان بار کونسل کے نمائندے کی تیاری نہ ہونے پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ سے ہمیں معاونت نہیں مل رہی، لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بینچ نے جب فل کورٹ تشکیل تجویز کی تو اگلی تاریخ کیسے دی؟ فل کورٹ تشکیل دینا نہ دینا تو پھر چیف جسٹس کا اختیار تھا۔
خصوصی عدالت کا فیصلہ آجانے کے بعد تو لاہور ہائیکورٹ میں زیر التواء درخواست غیر موثر ہو چکی ہے، فیصلے کے بعد ہائیکورٹ میں درخواست ترمیم کے بعد کی چل رہی تھی۔ لاہور ہائیکورٹ خصوصی عدالت کے فیصلے کو نظرانداز کر کے صرف عدالت کی حیثیت پر فیصلہ نہیں دے سکتی تھی۔ خصوصی عدالت ایک ریگولیٹر عدالت تھی ہی نہیں، وہ تو ایک فیصلے کیلئے تھی، جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ پرویز مشرف بھی سمجھتے تھے کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد بھی خصوصی عدالت کا فیصلہ برقرار ہے، پرویز مشرف نے اسی لیے خصوصی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا،چیف جسٹس نے پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر سے استفسار کیا کہ کیا آپ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو جانتے ہیں یا نہیں؟ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ مجھے اس سے متعلق ہدایات نہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کمرہ عدالت میں مارشل لاؤں کو جائز قرار دینے والے ججز کی تصاویر کیوں لگی ہیں؟ان ججز کی تصاویر یہاں کیوں لگی ہیں یہ بھی پوچھا جانا چاہئے،جسٹس منصور علی شاہ نے پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفد ر سے استفسار کیا کہ اگر عدالت پرویز مشرف کی سزا برقرار رکھتی ہے تو کیا پنشن مراعات بھی ختم ہوں گی؟آرمی کا قانون اس بارے میں کیا کہتا ہے؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ میرے خیال میں سزا کا فیصلہ برقرار رہے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ پنشن اور مراعات جاری رہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ فرض کریں عدالت سزا تک رہتی ہے، مراعات پر کچھ آبزور نہیں کرتی تو کیا ہوگا؟وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ یہاں یہ بات ہوئی کہ لاہور ہائیکورٹ کے سامنے سب ایک پیج پر تھے،لیکن میں ایک مختلف پیج پر ہوں، پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر کی بات پر عدالت میں قہقہہ لگ گیا۔
حامد خان نے کہاکہ لاہور ہائیکورٹ میں درخواستگزار، حکومت یا عدالتی معاون سب ایک پیج پر تھے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیاکہ اس وقت کس کی حکومت تھی؟سیاسی حکومت کی کیا مجبوری ہو سکتی ہے کہ وہ آئین شکنی کی مخالفت نہ کرے؟ وکیل پاکستان بار کونسل حسن رضا پاشا نے کہاکہ اس وقت 2020میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ حامد خان آپ یہ کہہ رہے ہیں حکومت خواہ کوئی بھی ہو پیج ایک ہی ہے،وکیل حامد خان نے کہاکہ پرویز مشرف کا یہ کیس تاریخی اعتبار سے بہت اہم ہے، پاکستان کی 75سال کی تاریخ میں پہلی بار ڈکٹیٹر پر مقدمہ چلا، فوجی حکومتوں نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا، آدھا ملک گنوا دیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ جب غاصب طاقتور ہوتا ہے تو کچھ نہیں کہتے،جب غاصب کمزور ہو جائے تو پھر ہم عاصمہ جیلانی کیس میں سب کچھ کہہ دیتے ہیں،بطور عدلیہ ہمیں بھی اپنی غلطیاں تسلیم کرنی چاہئیں،3نومبر 2007کو عدلیہ پر حملہ ہوا تو عدلیہ نے ایکشن لینے کاکہا،12اکتوبر 99کو آئین پامال کر دیا، پارلیمنٹ کو گھر بھیج دیا ، لیکن اس پر کوئی ایکشن نہ ہوا،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ہمیں اپنی نسلوں کو غلط اور صحیح کا بتانا چاہئے،ہمیں غلطیوں کا ادراک کرنا چاہئے، کچھ نہیں کر سکتے تو معافی تو مانگ سکتے ہیں،عدالت نے سنگین غداری کیس میں اپیلوں کی مزید سماعت 10جنوری 2024 تک ملتوی کردی۔