گیری کرسٹن کا استعفیٰ ، اصل حقائق منظر عام پر آگئے
عامر رضا خان
Stay tuned with 24 News HD Android App
پاکستان کرکٹ ٹیم وائٹ بال کے ہیڈ کوچ گیری کرسٹن نے عین اُس وقت کے جب قومی ٹیم دورہ آسٹریلیا کے لیے جانے والی تھی نے اپنا استعفیٰ بجھوا دیا مجھ سمیت کرکٹ سے محبت رکھنے والوں کے لیے یہ خبر اچانک یا بریکنگ نیوز تو ہوگی لیکن مجھ جیسے سپورٹس تجزیہ کاروں یا صحافیوں کے لیے یہ خبر کسی اچنبے کی بات نہیں تھی ، خبر کے مطابق گیری کرسٹن اور پی سی بی کے درمیان متعدد معاملات پر اختلافات تھے، گیری کرسٹن مینٹل پرفارمنس کوچ ڈیوڈ ریڈ کو کوچنگ سٹاف میں رکھنا چاہتے تھے ،گیری کرسٹن سلیکشن میں بھی من پسند کھلاڑیوں کو رکھنا چاہتے تھے، گیری کرسٹن نے من پسند ٹیم اور کوچنگ سٹاف نہ ملنے پر دورہ آسٹریلیا پر جانے سے انکار کردیا تھا، گیری کرسٹن کی عدم موجودگی میں پاکستان ریڈ بال کے ہیڈ کوچ جیسن گلیسپی کو دورہ آسٹریلیا میں عبوری کوچ تعینات کیا گیا ہے ،جیسن گلیسپی کا تعلق آسٹریلیا سے ہے اور وہ آسٹریلیا کے کنڈیشنز سے بھی ہم آہنگ ہیں، یہ تھی وہ خبر جو کسی نا کسی حوالے سے چلائی یا پھیلائی گئیں ہیں ۔
اس خبر کے اصل حقائق سے پردہ اٹھانے سے قبل میں آپکو ایک پس منظر بیان کرتا چلوں کہ گیری کرسٹن جنوبی افریقہ کی سفید فام نسل سے ہیں ، یہ انگریزوں کے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہین جنہوں نے سالہا سال جنوبی افریقہ کے سیاہ فام افراد اور قبائل کو اپنا غلام بنائے رکھا ان کے اسی امتیازی سلوک کے باعث انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے ان پر بین الاقوامی سطح پر کھیلنے کی پابندی بھی عائد کیے رکھی ، جنوبی افریقی عوام کے لیڈر نیلسن منڈیلا نے اپنے حقوق کے لیے زبردست جدوجہد کی اور 25 سال رابن نامی جزیرے جسے یہاں عرف عام میں کالا پانی بھی کہا جاتا ہے میں گذارے 2003 کے ورلڈ کپ میں ان گوری چمڑی والوں کی رعونت ، تکبر اور سہا فام اقوام سے نفرت کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ بھی کیا رابن آئی لینڈ بھی گیا ڈربن میں جہاں ہم نے رہائش رکھی وہاں تب تک بھی کسی سیاہ فام کو جانے کی اجازت نہیں تھی ، یہاں کے ہیرے ، سونے اور چاندی کی کانوں کو خالی کرنے کے بعد اس ملک کو آزادی ملی لیکن اس آزادی کے دینے کے بعد بھی گوری رنگت والوں کی نفرت کم نہیں ہوئی اور اُن کا یہی غرور آج بھی قائم ہے ۔
اور اسی غرور میں گیری کرسٹن کے معاملات پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ بگر گئے گیری کرسٹن آج بھی شائد اُسی دور حاکمیت کی ذہنیت لیے ہوئے تھے اُن کے خیال میں پی سی بھی ان کی کوئی کالونی تھی جبھی تو اُنہوں نے یہان اپنی من مرضی کے فیصلے پی سی بی پر صادر کرنا چاہے اور اُن کا یہی رویہ پی سی بی کے چیئرمین محسن نقوی کے ساتھ اختلافات کا باعث بنا ،گیری کرسٹن کے قومی سلیکشن میں سنٹرل کنٹریکٹس کی کیٹگریز اور سپورٹ سٹاف میں اپنے پسندیدہ افراد کو شامل کرنے پر زور دے رہے تھے جس پر اختلافات پیدا ہوئے، گیری کرسٹن نے اپنے معاہدے کے مطابق پاکستان میں موجودگی سے بھی انکار کردیا ، گیری کرسٹن نے کسی بھی سیریز یا ٹوور سے ایک ہفتہ قبل پاکستان ٹیم کا کیمپ جوائن کرنے کا کہامعاہدہے کے مطابق انہیں سال میں ایک مہینہ چھٹیوں کی اجازت تھی ،معاہدہے کے مطابق گیری کرسٹن نے گیارہ ماہ قومی ٹیم کی سپر ویژن کرنا تھی ،گیری کرسٹن نے چیمپئینز کپ کے دوران یا اسکے علاوہ بھی موجودگی سے انکار کردیا تھا ،ڈیوڈ ریڈ کے معاہدے کی وضاحت مانگی اور نہ دینے کی صورت میں آسٹریلیا نہ جانے کی بھی دھمکی دے ڈالی۔
اس صورتحال میں بھی پی سی بی کے چیئرمین محسن نقوی نے تحمل اور برد باری کا مظاہرہ کیا اور اس بات کے خواہشمند رہے کہ گیری کرسٹن کے ساتھ کئے جانے والے معاہدے پر سو فیصد عملدرآمد ہو اور معاہدہ خوش اسلوبی سے انجام پذیر ہو لیکن جب معاملہ حد سے بڑھا گیری کرسٹن ہر ڈھیل کو پی سی بی کی مجبوری خیال کرنے لگا تو اُن پر واضع کیا گیا کہ وہ معاہدے کے مطابق پاکستان میں وقت گذاریں اور پی سی بی کی سلیکشن کمیٹی کی راہ مین روڑے نا اٹکائیں لیکن سیاہ فاموں پر حکومت کرنے والے گروہ کے رکن اس کو بھی کوئی مقبوضہ ریاست خیال کرہے تھے ان کے اسی روئیے پر پی سی بی نے اپنے موقف میں لچک کے باوجود ثابت قدمی دکھائی لیکن گیری کرسٹن کی دھمکیوں میں نہ آنے اور بلیک میل نا ہونے کا فیصلہ کیا اور واضع کیا کہ پی سی بی معاہدے کی پاسداری کرئے گا اس کے بعد جو فیصلہ کرنا ہے وہ گیری کرسٹن نے کرنا ہے۔
جس پر گیری کرسٹن نے استعفیٰ دے دیا جسے چیئرمین کرکٹ بورڈ نے قبول کیا اور اس کے ساتھ ہی جیسن گلیپسی کی صلاحیتوں سے دورہ آسٹریلیا میں بھر فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا آسٹریلوی سابق کھلاڑی جیسن گلیسپی کو ہیڈ کوچ مقرر کر دیا گیا وہ اس سے قبل صرف ریڈ بال کے کوچ تھے ،جیسن گلیپسی کو قومی کرکٹ ٹیم کے ہمراہ دورہ آسٹریلیا کےلئے روانہ ہونگے، آسٹریلیا میں آسٹریلوی کھلاڑی کے بطور ہیڈ کوچ تعینات کردیا ہے اور موجودہ حالات مین یہ بہترین فیصلہ ہے کہ گلیسپی وہان کے حالات کو اور ٹیم کو بہتر سمجھتے ہیں۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر