اسرائیلی کے فضائی حملے کے بعد خطہ بڑی جنگ کے دہانے پر پہنچ گیا، سلیم بخاری
Stay tuned with 24 News HD Android App
(فرخ احمد)سینئر صحافی اور معروف تجزیہ کار سلیم بخاری نے اسرائیل کے ایران پر فضائی حملے پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کے فضائی حملے کے بعد یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ یہ خطہ ایک بڑی جنگ کے دہانے پر پہنچ گیا ہے،اس کی وجہ اسرائیل کا جنگی جنون ہے جو کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے یہاں تک کہ اب وہ دوسرے ممالک کی سرحدوں کی بھی پرواہ نہیں کر رہا جو کہ ایک خطرناک پہلو ہے،اسرائیل کا ایران پر یہ دوسرا حملہ ہے پہلے حملہ میں اسماعیل ہنیہ کو شہید کیا گیا اب دوسرا حملہ،جس میں اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ جس عمارت میں دھماکا ہوا ہے وہ تہران میں ہے اور اس عمارت سے دس سے زائد افراد کو ریسکیو کیا گیا ہے۔
مزید کرج وہ شہر ہے جہاں ایران کے نیوکلیئر پاورپلانٹس موجود ہیں تاہم یہ واضح نہیں کہ نیوکلیئر پاور پلانٹ کو نشانہ بنایا گیا ہے یا نہیں، اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے سے قبل وائٹ ہاؤس کو آگاہی دیدی گئی تھی۔اسرائیلی میڈیا نے اسرائیلی ڈیفنس فورس کے حوالے سے فضائی حملے میں ایران میں کئی فوجی اہداف کو نشانہ بنانے کی تصدیق کی ،اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے ایران میں مخصوص اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔
سینئر صحافی نے کہا کہ علاقائی اور بین الاقوامی لیڈر شپ اور اداروں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ صورتحال انتہائی سنگین صورت اختیار کر چکی ہے۔ اگر اس کا سدباب نہ کیا گیا تو ریجن کو بڑی جنگ کی آگ سے بچانا مشکل ہو جائے گا۔
امریکی صدر کے رویے اور اسرائیل کی حمایت میں بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے سلیم بخاری نے کہا کیا دلیل ہے کہ ایران کو اس حملے کے جواب سے باز رہنا چاہیے یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ دو دفعہ حملہ کریں اور ایران خاموش رہے۔کیا ایسے امن قائم رہ سکتا ہے کہ ایک ملک جو کسی بھی ملک پر حملہ آور ہو جائے اور امریکہ یہ کہے کہ امن قائم رکھنے کے لیے اس کو جواب بھی نہ دیا جائے۔
چھبیسویں کے بعد ستائیسویں ترمیم
چھبیسویں کے بعد ستائیسویں ترمیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سینئر تجزیہ نے کہا کہ اصل لڑائی حکومت کی تحریک انصاف سے نہیں بلکہ عدلیہ سے ہے کیونکہ حکومت اصل میں جوڈیشل ایکٹوازم پر قابو پانا چاہتی ہے چھبیسویں ترمیم میں جو ترامیم حکومت مولانا صاحب اور پی ٹی آئی کے دباو ٔکی وجہ سے نہ کر سکی تھی وہ اب ستائیسویں ترمیم میں کر کے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے، سلیم بخار ی نے کہا کہ جوڈیشل ایکٹوازم کی ایک جمہوریت کش تاریخ ہے جس نے کئی وزراء اعظم کو گھر بھیج دیا، انہوں نے سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ کیا اس کو جاری رہنا چاہیے یا نہیں، یقینا نہیں،کیونکہ جو لوگ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں ان کو ججز کی انا کی بھینٹ نہیں چڑھایا جا سکتا۔کیا پارلیمنٹ کو سپریم ہونا چاہیے یا عدلیہ کو ؟
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ اپوزیشن میں ہوں اور حکومت میں جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، 27ویں آئینی ترمیم نہیں آسکے گی، بھرپور مزاحمت کریں گے۔اس پر اپنی رائےکا اظہار کرتے ہوئے سلیم بخاری نے کہا کہ مولانا صاحب بہت اچھا کھیل رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا دعوی ٰ ہے کہ ان کے گیارہ ایم این ایز اور دو سینیٹرز منحرف ہو چکے ہیں، اس کا مطلب یہ کہ اب آئینی ترمیم کیلئے حکومت کو مولانا کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے مولانا سیاسی داؤ پیچ آزما رہےہیں،تاکہ حکومت ان کو گیم سےآؤٹ نہ کرے اور ان کی اہمیت قائم رہے۔
بشریٰ بی بی کی کے پی سیاست میں انٹری
پاکستان تحریک انصاف نے یکم نومبر کو پشاور میں جلسہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ جلسے میں بشریٰ بی بی کی شرکت متوقع ہے، اس پر تبصرہ کرتے ہوئےسینئر صحافی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی تو عدالتوں میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہی تھی کہ بشریٰ بی بی ایک گھریلو خاتون ہے جبکہ سب جانتے ہیں کہ ان کا سیاست میں اہم رول ہے ،وہ بزدار کے دور حکومت میں پنجاب کی سیاست میں فعال کردار ادا کررہی تھیں، پنجاب میں سول بیوروکریٹ کے تبادلوں میں ان کا اہم کردار ہوتا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ بانی پی ٹی آئی خاندانی سیاست کے سخت خلاف تھے لیکن اب یہ تو ان کے نظریئے کی نفی ہے،سلیم بخاری نے کہا کہ پارٹی پہلے ہی مختلف دھڑوں میں تقسیم ہے، اس میں اب بشریٰ بی بی کا گروپ بھی سامنے آئے گا جو کہ سیاسی پارٹی کیلئے اچھا نہیں ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہےکہ مختلف دھڑوں میں تقسیم پی ٹی آئی کی مستقبل کی حکمت عملی کیا ہو گی؟