(24نیوز) پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور سابق چیئر مین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہاہے کہ آئین نافذالعمل نظر نہیں آرہا ،ملک میں ایک ہی قانون ہے وہ ریاست کا قانون ہے ،سول ملٹری ریلیشن شپ خام خیالی ہے ،ریاست اپنے کنٹرول کو مکمل کرنا چاہ رہی کیا افغانستان کا معاملہ پارلیمان میں آیا ؟۔
معلومات تک رسائی کے حوالے سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے رضا ربانی نے کہاکہ آئین نافذالعمل نظر نہیں آرہا ملک میں ایک ہی قانون ہے وہ ریاست کا قانون ہے ،پاکستان کی رولنگ ایلیٹ نے ریاست کو اپنے مقاصد کےلئے استعمال کیا ۔ انہوں نے کہاکہ سول ملٹری ریلیشن شپ خام خیالی ہے ، انہوں نے کہاکہ جب آپ کہتے معلومات نہیں مل رہی وہ کیوں آپ کو ملے گی ؟،ادارے جان بوجھ کر ختم کیے جارہے ہیں ،اگرریاست خود ان کو ختم کرے تو اس کا مطلب ہم فسطائی نظام کی طرف بڑھ رہے ہیں ،جوڈیشری پر حملہ کیا میڈیا پر قدغنیں لگائی گئیں ۔ انہوں نے کہاکہ چھ سے سات آئی جیز کو تبدیل کیا گیا اداروں کو کھوکھلا کیا جارہا ہے ،ریاست اپنے کنٹرول کو مکمل کرنا چاھ رہی کیا افغانستان کا معاملہ پارلیمان میں آیا ؟۔ انہوں نے کہاکہ جدوجہد کی سمت واضح ہونی چاہئے ہمارا سامنا کن قوتوں کے ساتھ ہے ۔ انہوں نے کہاکہ کہا جارہا ہے الیکٹرانک مشین کا روس میں کامیاب تجربہ رہا ہے ،روس میں کیمو نسٹ پارٹی دھاندلی کے خلاف سراپا احتجاج ہے ،کیا ہم یہی تجربہ پاکستان میں کرنا چاھتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ بنیادی اصلاحات کےلئے تمام فریقین کو ساتھ لے چلنا پڑتا ہے ،قانون سازی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے کر لیں لیکن فریقین ساتھ نہ ہوں تو اس قانون سازی کی کیا اہمیت ہوگی ؟،پاکستان کے لوگ ریاست سے کٹے ہوئے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہاکہ یہاں پر جو گفتگو سنی اس سے ایسے لگ رہا تھا جیسے ہم آئیڈیل ریاست میں رہتے ہیں ،ہم ایک ایسی ریاست میں رہ رہے ہیں جو اخلاقیات سے عاری ہے ۔ انہوں نے کہاکہ بارہ سال بعد سپریم کورٹ کے جج گھر جاتے جاتے 16ہزار ملازمین کو گھر بھیج دیا ۔ انہوں نے کہاکہ ہر ادارے کی توہین کا قانون ہے ،یہاں پارلیمنٹ بے بس اور لاچار ادارہ ہے جس کی کوئی توہین نہیں ہوتی ، سینٹ میں سوالات کے جوابات نہیں ملتے ،معلومات تک رسائی پارلیمنٹرین کو نہیں ملتی ۔ انہوں نے کہاکہ سب سے بڑی فیک نیوز یہ ہے ہم جموری ملک میں رہتے ہیں ۔سینیٹر عرفان صدیقی نے کہاکہ ہم ریاست سے توقع رکھتے ہیں کہ ہمیں ہمارے حقوق دے،ہم ایسی ریاست کے شہری ہیں جو ریاست کے مروجہ اخلاقیات کے معنی پر پورا نہیں اترتی،ہم آئین کی پاسداری نہیں کرتے،قوانین دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں،پارلیمنٹ کی کیا وقعت اور حیثیت ہے؟،پارلیمنٹ کا منظور کردہ قانون تھا جس کو نظرانداز کیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ آدھی رات کو میں سویا ہوں بیل بجتی ہے، مجھے ایسے گرفتار کرلیا جاتا ہے جیسے کوئی دہشت گرد ہو،مجھے ادویات لینے دی گئیں ناں کپڑے،میرے ہاتھ میں ہتھکڑیاں ڈال دی گئیں،جرم یہ بیان کیا گیا کہ میں نے گھر کرایہ پر دیا لیکن پولیس میں کرایہ دار کا اندراج نہیں کرایا ۔مجھے چودہ دن کے لئے اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا،مجھے قصوری چکی میں ڈالا گیا،سات مہینے کیس چلا جس کے بعد پولیس نے کہا ایسا کوئی جرم نہیں ہوا،آج تک کچھ پتانہیں چلا میرے ساتھ یہ سب کیوں کیا گیا؟۔ انہوںنے کہاکہ یہاں طاقت جبر کی حکمرانی ہے،ہمارے ملک کی سب سے بڑی فیک نیوز یہ ہے کہ ہم آئین رکھتے ہیں،بڑی فیک نیوز ہے کہ یہاں جمہوریت ہے،فیک ریاست کے فیک قوانین کے سامنے جدوجہد جاری رکھیں،عدلیہ کبھی آپ کے تحفظ کے لئے آگے نہیں آئے گی۔
سینیٹر فیصل جاوید نے کہاکہ پی ایم ڈی اے بل کا کوئی مسودہ نہیں ہے ،یہ صرف مشاورتی عمل شروع کیا ہے ،صحافتی تنظیموں کے ساتھ مل کر اس پر کام کریں گے ۔ انہوں نے کہاکہ فیک نیوز بہت بڑا مسئلہ ہے اس کی روک تھام ہونی چاہئے ،فیک نیوز کے حوالے سے روک تھام کے لئے قانون سازی ہونی چاہئے ۔ انہوں نے کہاکہ ڈیجیٹل میڈیا کو بھی ریگولیٹ کیا جانا چاہئے ،ہماری کمیٹی نے پی ایم ڈی اے بل پر ٹیکنیکل بات چیت کی ،ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کو قانون کے دائرے میں لانا ہو گی ۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم عمران خان آزادی رائے اور میڈیا پر کوئی قدغن نہیں لگائیں گے ،تمام فریقین کے ساتھ مل معاملات حل ہو گئے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر سپریم کورٹ نے واضح کہا صاف شفاف کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے ،جتنے بھی الیکشن ہوئے تمام پر دھاندلی کے الزامات لگے ہیں ،الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال نا گزیر ہے ،پی ٹی آئی حکومت اپوزیشن کو بار بار موقع فراہم کر رہی الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر تجاویز دے حالانکہ ہم پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قانون سازی کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ عمران خان کرپشن کی بنیاد پر اپنے صوبائی اسمبلی کے ارکان کو فارغ کیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر الیکشن کے نظام کو ٹھیک کریں ،مل بیٹھ کر تمام فریقین کو مسائل کا حل نکالیں۔
رکن اسمبلی ریاض فتیانہ نے کہاکہ معلومات تک رسائی ہر شہری کو حق حاصل ہونا چاہئے ،ایکٹ آف پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے جج نے اڑا کے رکھ دیا ہے ، انہوں نے کہاکہ پولیس ، جوڈیشری اور الیکشن اصلاحات کی جائیں ۔ انہوں نے کہاکہ اچھی گورننس کے لئے معلومات تک رسائی ضروری ہے ۔ انہوں نے کہاکہ حکومت ،میڈیا اور ویج ایوارڈ تینوں کو بہتر کرنا ہوگا ،جمہوریت ہوگی تو صحافت آزاد ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ جمہوریت تب آزاد ہوگی جب سیاسی جماعتیں مضبوط ہونگی ،سیاست سے نظریات ختم ہوتے جارہے ہیں ،صحافیوں کی مالی حالت بہتر ہونی چاہئے ۔ انہوں نے کہاکہ ایسی قانون سازی ہو جو میڈیا ہاوسز تنخواہیں ادا نہیں کررہے ان کو ریاست اپنی تحویل میں لے اور خودتنخواہ دے۔
صدر نیشنل پریس کلب شکیل انجم نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ،ہماری زبان بندی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے،کالے قوانین لائے جا رہے ہیں،جلد ایک تحریک کا آغاز ہو رہا ہے۔شفیق چودھری نے کہاکہ بنیادی حقوق کے لئے ہم میڈیا کے ساتھ ہیں ،معلومات تک رسائی ہونی چا ہئے پاکستان میں جب کوئی فوجی حکومت ہوتی ہے بولنے کی آزادی چھینتی ہے۔رکن قومی اسمبلی صائمہ ندیم نے کہاکہ آزادی سے ہم بولنے کے لیے یہاں بیٹھے ہیں ،میرا تعلق صحافت سے ہے میڈیا کےلئے دل میں عزت ہے ،میڈیا کو جب بھی میری ضرورت ہو گی اس کے لئے حاضر ہوں ۔پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ صوبیہ نے کہاکہ مجھے فخر میرا اس سیاسی جماعت سے تعلق ہے جو غلط کو غلط اور صیح کو صیح کہتے ہیں ،میڈیا کے حوالے سے قانون بنے ہوئے ہیں صرف قانون پر عملدر آمد کرنے کی ضرورت ہے ،حکومت نے ایک کروڑ نوکریا ں دینے کی بجائے اور لوگوں کو بے روزگار کیا ، حکومت قومی مسائل پر اپوزیشن کو اعتماد میں لے۔غزالہ سیفی نے کہاکہ بولنے والے اور لکھنے والے بہت تھوڑے ہیں ،پارلیمنٹ کا زیادہ تر بزنس شورشرابے اور ہنگامہ کی نظر ہو جاتا ہے ،شام کے جریدے میں جو نیوز ہوتی وہ بالکل پڑھنے کے قابل نہیں ہوتی۔فہد حسین نے کہاکہ معلومات تک رسائی کے لئے ایک کمیشن بنا ہے لیکن وہ اقتدار کے سامنے بے بس ہے ،معلومات تک رسائی کا قانون تو پاس ہو گیا لیکن سرکاری اداروں کو ہضم نہیں ہورہا ،توشہ خانہ سے متعلق معلومات تک رسائی لینے میں کونسی خرابی ہے ،احتساب طاقتور کا نہیں کمزور کا ہونا ہے ،سیاسی جماعتوں کا اقتدار میں رویہ کچھ اور اپوزیشن میں کچھ اور ہوتا ہے روش کو تبدیل کرنا ہوگا۔ناصر زیدی نے کہاکہ سول سپر میسی کو اولیت دینا ہو گی پچاس سال سے انہی معاملات پر بات کرتے ہیں ،ریاست کے بیانیہ کو ٹھیک کرنا پڑے گا ،سیاسی جماعتون کو مل بیٹھنا ہو گا۔
آئین کا نفاذ نظر نہیں آرہا۔ رضا ربانی ۔۔پاکستان کا جمہوری ملک ہونا بڑی فیک نیوز ہے۔عرفان صدیقی
Sep 28, 2021 | 18:29:PM