قانون تحریکَ انصاف کی خواہشات کا تابع یا پاکستان کے آئین کا تابع ہے؟ فیصلہ کون کرے گا؟

Sep 28, 2023 | 09:35:AM
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ایک ماہ اور اکیس دن اٹک جیل میں قید رہنے والے چئیرمین پی ٹی آئی کا نیکسٹ سٹاپ اڈیالہ ثابت ہوا ہے۔چئیرمین پی ٹی آئی ملکی سیاسی تاریخ کے چوتھے سابق وزیر اعظم ہیں جو اڈیالہ جیل پہنچے ہیں ۔اس سے پہلے سابق وزیر اعظم نواز شریف دو بار اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ،او یوسف رضا گیلانی ایک ایک بار اڈیالہ کی ہوا کھا چکے ہیں ۔پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق کہتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم ہی نہیں بلکہ سابق صدر آصف علی زرداری بھی اس اڈیالہ جیل کے مکین رہے ہیں ،یعنی چئیرمین پی ٹی آئی بھی ان سیاسی رہنماوں کی صف میں آکھڑے ہوئے ہیں جن کا مقدر اڑیالہ جیل ٹھہری ۔فرق صرف اتنا ہے کہ وہ اڈیالہ جیل جہاں اپنے سیاسی مخالفین کو رکھنا چئیرمین پی ٹی آئی کا بڑا خواب تھا آج اسی اڈیالہ جیل میں وہ خود موجود ہیں ۔وہ اڈیالہ جس کا ذکر پی ٹی آئی کے سیاسی ترانون میں گونجتا تھا آج اسی اڈیالہ جیل میں چئیرمین پی ٹی آئی کی موجودگی پر پی ٹی آئی نغمہ نگاروں پر خاموشی چھائی ہے۔وہی اڈیالہ جیل کہ جو چئیرمین پی ٹی آئی کے نزدیک چوروں اور ڈاکووں کی منزل تھی آج وہیاڈیالہ جیل ان کی اپنی منزل بن گئی ہے۔وہی اڈیالہ جیل کہ جس کا ذکر کرنا چئیرمین پی ٹی آئی کی تقاریر کا خاصہ تھا آسج اسی اڈیالہ جیل میں انکی موجودگی کے چرچے مخالف کیمپس میں ہو رہے ہیں ۔ستم ظریقی تو یہ ہے کہ یہ وہی اڈیالہ جیل ہے اور اڈیالہ جیل کی بیرک بھی وہی ہے جس میں ان کے سب سے بڑے سیاسی مخالف نواز شریف موجود تھے اور چئیرمین پی ٹی آئی ان کی بیرک سے منہ پر ہاتھ پھیر کر اے سی اور ٹی وی اتروانے کی باتیں کیا کرتے تھے۔وقت کا پہیہ بڑا بے رحم ہے ۔2019 میں شائد کوئی گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ کبھی چئیرمین پی ٹی آئی جیسا وقت کا وزیر اعظم بھی اڈیالہ جیل میں قید ہوگا ۔کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ سب کو احتساب کی چکی میں پیسنے والا خود احتساب کے شکنجے میں آجائے گا۔بڑے بڑے عوامی اجتماعات میں غرور اور تکبر سے چور چور اور ڈاکو ڈاکو کا راگ الاپنے والا خود انہین الزامات کے تحت جیل میں ہوگا۔خیر وقت کا پہیہ بڑا بے رحم ہے۔ اور وقت سے ڈرنا چاہیے کیونکہ وقت سدا ایک جیسا نہیں رہتا ،آج جب چئیرمین پی ٹی آئی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت سے ریلیف لیکر اٹک سے اڑیالہ جیل پہنچے ہیں تو سوال تو بہت سارے ہیں ۔کیا چئیرمین پی ٹی آئی جیل میں وہ تمام سہولیات حاصل کرینگے جو وہ نواز شریف سے واپس لینے کی بات کر رہے تھے ؟کیا چئیرمین پی ٹی آئی کو ادارک ہوگیا ہوگا کہ یہ مقافات عمل ہے؟کیا وہ یہ سمجھ چکے ہو نگے کہ خدا کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے اور وہ وہ عرونت بھرا لہجہ ہرگز پسند نہیں کرتا۔سوال تو یہ بھی ہے کہ آج وہ جسٹس عامر فاروق جن پر چئیرمین پی ٹی آئی اور انکے کی پیڈ وارئیر سوشل میڈیا پر بہتان لگاتے تھے ،پرپیگینڈہ کرتے تھے آج جب وہ ان کی جانب سے دی گئی سہولیات جن میں مشقتی ،مرضی کا کھانا،ٹی وی ،اٹیچ باتھ روم جیسی دیگر تمام سہولیات مل رہی ہیں تو کیا وہ اب بھی چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورت پر عدم اعتما د کا اظہار کرینگے۔۔ پی ٹی آئی کا یہی طرز سیاست ان کو اس نوبت تک لے آیا ہے۔بطور جماعت ان کے کارکن اور رہنما ہر اس فرد کیخلاف پراپیگنڈہ کرتے ہیں جن سے انہیں کچھ فوائد حاصل کرنا ہوں اگر حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جسٹس عامر فاروق نے 27 میں سے 26 فیصلے تحریکَ انصاف کے حق میں مختلف مواقعوں پر دیے ہیں اور ان فیصلوں کو تحریکِ انصاف آئین اور قانون کے فیصلے مانتی ہے مگر جو فیصلے ان کی خواہشات کے برعکس ہوتے ہیں ان فیصلوں پر تنقید کی جاتی ہے ۔بطور جماعت تحریک انصاف کے لیے یہ شرمندگی کا مقام ہے کہ انہوں نے جسٹس عامر فاروق کے خلاف اپنی کور کمیٹی کے ذریعے بیانات جاری کرائے اور ٹویٹر پر تنقیدی مہم چلائی۔ ۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا قانون تحریکَ انصاف کی خواہشات کا تابع ہے یا پاکستان کے آئین کے تابع ہے؟ اس کا فیصلہ کون کرے گا؟

دیگر کیٹیگریز: ویڈیوز
ٹیگز: