(امانت گشکوری)وفاقی حکومت نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست واپس لے لی ۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ، بنچ میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین خان شامل ہیں ، وفاقی حکومت نے نظرثانی درخواست واپس لے لی ، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ آپ درخواست کیوں واپس لے رہے کوئی وجہ ہے؟اٹارنی جنرل نے جواب جمع کروایا اور کہا کہ کوئی خاص وجہ نہیں ہے صرف نظرثانی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نظرثانی واپس لینے کیلئے تحریری درخواستیں دائر کی جائیں،زیر التوا مقدمات پر میڈیا پروگرامز ہورہے ہیں،4 سال یہ کیس نہیں لگا تو کوئی نہیں بولا جب سماعت کیلئے مقرر ہوا پروگرام شروع ہوگئے،کیا زیر التوا مقدمات پر پروگرامز نشتر کیے جاسکتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ میڈیا ہمارے کنٹرول میں نہیں ہم صرف درخواست کر سکتے ہیں،تحریک انصاف اور پیمرا کے وکلا نے بھی نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کر دی،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم سب وکلا کو سن کر پھر فیصلہ کریں گے،شیخ رشید اور الیکشن کمیشن کی بھی نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کر دی ۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ سب لوگ درخواستیں واپس لے رہے،نظرثانی درخواستوں میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں نقائص ہیں،اب بتائیں کہ فیصلے میں نقائص تھے یا نہیں ایسے تو درخواستیں واپس نہ لیں،دھرنے کیوجہ سے پورے ملک کو اذیت میں رکھا گیا،اب صرف موکل سے ہدایات لے کر درخواستیں واپس لینے کا تو نہ کہا جائے۔
یہ بھی پڑھیں:عمران خان کے دیرینہ ساتھی فرخ حبیب بھائی اور 4 ساتھیوں سمیت بلوچستان سے گرفتار
سب نظرثانی درخواستیں واپس بھی ہوجائیں تو ہمارے فیصلے کا کیا ہوگا،کیا 2019 کے فیصلے پر عملدرآمد ہوچکا،سب لوگ ڈرے ہوئے کیوں ہیں کوئی درست بات نہیں بتا رہا،مجھ سمیت احتساب سب کا ہونا چاہیے،احتساب سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے،فیصلے میں 12 مئی کا ذکر کیا تھا 55 لوگ مارے گئے انکا حساب کون دے گا?ٹی ایل پی نے تو نظرثانی دائر ہی نہیں کی جس کو کرنی چاہیے تھی،رضوی صاحب زندہ تھے اس وقت مگر شاید ہمارے فیصلے سے مطمئن تھے،غلطی ہوجاتی اسے تسلیم کرنا بڑاپن ہوتا ہے.
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ نظرثانی واپس لیکر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جو ہوا مٹی پاو،12 مئی کے واقعات پر بھی مٹی پاو کہیں گے کیا،کچھ وکلا تحریری دلائل دینا چاہتے ہیں تو دے سکتے ہیں،جو بھی حکومت ہو اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کرائے،ٹی ایل پی سے زیادہ شاید پیمرا کو مسئلہ تھا جس نے نظرثانی دائر کی،اٹارنی جنرل صرف نظرثانی واپس لینے کا کہہ کر معاملہ ختم نہیں کراسکتے،اٹارنی جنرل صاحب عدالتی وقت کے ضیاع پر کیوں نہ درخواست گزاروں کو جرمانہ کریں۔
چیف جسٹس نے فیض آباد دھرنا کیس کا سارا فیصلہ پڑھنے کی ہدایت کر دی، فیصلے کے ہر ایک نکتے کو دیکھیں،چیف جسٹس کی وکلا کو ہدایت ، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے پر عمل کیا،چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کیسے نظرثانی واپس لے رہا،وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا اس وقت کے الیکشن کمیشن حکام نے درخواست دائر کی،چیف جسٹس
نے کہا اس وقت کے الیکشن کمیشن حکام سے کیا مطلب ہے،اشخاص کی تبدیلی سے حکومت یا قومی ادارے کبھی تبدیل نہیں ہوتے،حکومت ہوں یا ادارے وہ نئے یا پرانے نہیں ہوتے،
اٹارنی جنرل صاحب آپکو کہنا چاہیئے تھا کہ نظرثانی درخواستیں پہلے کیوں مقرر نہ ہوئیں،جب وزارت دفاع کے نمائندے سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا دھرنا روکنا ہمارا کام نہیں،ملک کو تباہ کیا جارہا تھا اور وزارت دفاع کے اس وقت کے نمائندے کا جواب حیران کن تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ فیض آباد دھرنا فیصلے میں کسی ایک شخص کا نام نہیں لیا گیا،آرمی چیف سمیت تمام اعلی حکام کیلئے لکھا گیا کہ جو ذمہ دار ہو اس کا تعین کیا جائے،کیا کوئی کنڈکٹر تھا جو یہ سب کرا رہا تھا؟ الیکشن کمیشن نے تب کس کے کہنے پر نظرثانی دائر کی؟ آرکیسٹرا میں ہوتا ہے کہ سب میوزک بجاتے ہیں اور سامنے ایک ڈنڈا لیے کمانڈ دے رہا ہوتا ہے، کیا الیکشن تب کنٹرول ہو رہا تھا اب ہو رہا ہے یا ہمیشہ سے ہوتا آیا؟پاکستان میں وہ چلتا ہے جو پوری دنیا میں نہیں ہوتا، پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ "حکم اوپر سے آیا ہے"،الیکشن کمیشن بتائے کہ کس نے کہا تھا کہ نظرثانی دائر کر دو؟ نعوذ باللہ اوپر سے حکم اللہ کا نہیں یہاں کسی اور کا ہوتا ہے، عدالتوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نبی کریم ﷺنے بھی جھوٹ سے منع کیا ہے،جو ہوا اس کا اعتراف تو کر لیں،جزا سزا بعد میں ہوگی، اعتراف جرم تو کریں،مان لیں کہ الیکشن کمیشن کو اس وقت فرد واحد کے حوالے کیا گیا تھا،آج الیکشن کمیشن آزاد ہوگیا ہے، ہمت ہے تو کہیں تب کون سب کچھ کنٹرول کر رہا تھا،توقع تھی ایک نظرثانی درخواست آئے گی لیکن 3آگئیں،وہ صاحب کدھر ہیں جو کینیڈا سے جمہوریت کیلئے آئے تھے، ایک صاحب کے بارے میں زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا،ہوسکتا ہے ان کے مقدمات ہمارے سامنے آجائیں،وکیل تو بڑے باہمت ہوتے ہیں سچ ہی بول دیں،عدالت ضرور آئیں مگر عدالت کو استعمال نہ کریں،اللہ بھی کہتا ہے معاف کرنا یا نہ کرنا اختیار ہے مگر پہلے معافی مانگیں تو صحیح،آپ لوگ خادم رضوی تک نہیں پہنچ سکے مگر اعتراف نہیں کر سکتے،
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطبر کرتے ہوئے کہا کہ بتائیں نہ 2017 میں دھرنا کیسے ہوا معاملات کیسے چل رہے تھے،ہم نے 12 مئی جیسے واقعات سے سبق نہیں سیکھا،آپ جھتے بازی کے رجحان کو آج بھی فروغ دے رہے ہیں،الیکشن کمیشن اگر دھرنا کیس فیصلے پر عملدآمد چاہتا ہے تو اپنے متعلقہ حصہ کا فیصلہ پڑھے،وکیل الیکشن کمیشن نے متعلقہ پیراگراف پڑھ دیا ،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس پر عملدامد کہاں ہوا وہ بتائیں اسے ریکارڈ کا حصہ بنائیں گے،اکتوبر تک جو وکلا جوابات جمع کرانا چاہیں کرا دیں،عدالت نے کیس کی سماعت یکم نومبر تک ملتوی کردی ،فیض آباد دھرنے سے متعلق 6 فریقین نے نظرثانی درخواستیں واپس لے لیں ،عدالت میں وکیل کی عدم پیشی پر ایم کیو ایم کو نوٹس جاری کر دیا گیا