پی ٹی آئی کو بڑا جھٹکا،مولانا کھیل گئے،عمران خان دیکھتے رہ گئے

Aug 29, 2024 | 09:50:AM
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکومت اِس وقت اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔معاشی اور سیاسی بحران سرا ُٹھا رہے ہیں ۔سڑکوں پر تاجر سراپا احتجاج ہیں ۔دوست ممالک سے قرض رول اوور نہیں ہورہا جس کی وجہ سے پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کے حصول میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔اب جہاں حکومت کو ہر طرف سے غیر یقینی کی صورتحال کا سامنا ہے۔ایسے میں حکومت اپنے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے اور خود کو مضبوط کرنے کیلئے اتحادیوں سے تعلقات کو مضبوط کر رہی ہے۔اِسی لئے یہ تاثر بھی اُبھر رہا ہےکہ حکومت اپنے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے آئینی ترمیم کا سہارا لیکر موجودہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ ملکی امور کو آسانی کےساتھ چلاتی رہےاور اُس کے راستے میں کسی قسم کی کوئی قانونی رکاوٹ نہ آئے کیونکہ حکومتی وزراء اِس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد انتخابات کالعدم قرار دینے کا معاملہ سپریم کورٹ میں چل سکتا ہے۔گو کہ حکومت اِس بات سے انکار کر رہی ہے کہ وہ کوئی اِس طرح کی ترمیم نہیں لارہی۔اور خرم دستگیر تو چیف جسٹس کی ایکسٹینشن کے حوالے سے ترمیم کو قیاس آرائی قرار دے رہے ہیں ۔
اب دوسری جانب جب حکومت سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ اگر موجودہ چیف جسٹس کو کوئی ایکسٹینشن نہیں دی جائے گی تو پھر یہ سمجھا جائے کہ اگلے چیف جسٹس منصور علی شاہ ہوں گے تو اُس پر بیرسٹردانیال چوہدری کہتے ہیں کہ چیف جسٹس کی ترمیم کے حوالے سے کوئی بات نہیں ۔
اب حکومت اِس بات سے انکاری ہے کہ وہ چیف جسٹس کی ایکسٹینشن سے متعلق کوئی ترمیم لانے جارہی ہے ۔لیکن دوسری جانب عدلیہ کے حوالے سے بل تیار کئے جارہے ہیں ،جیسا کہ حکومت نے عدلیہ سے متعلق اہم قانون سازی کا فیصلہ کرتے ہوئے 1997 ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ ترمیمی بل قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کروا دیا ہے۔حکومتی رکن بیرسٹر دانیال چوہدری کے مجوزہ بل کے مندرجات بھی سامنے آگئے ہیں جن کے مطابق سپریم کورٹ ججز کی تعداد میں اضافہ کیسز بیک لاگ کے باعث ضروری ہے اور ججز کی تعداد میں اضافے سے کیسز کی بر وقت سماعت اور فیصلوں کو یقینی بنایا جاسکے گا۔بل کے متن کے مطابق سائبر کرائم، ماحولیاتی قوانین اور عالمی تجارت کے کیسز میں ماہرین کی ضرورت ہے، مختلف شعبوں میں مہارت رکھنے والے ججز کی تقرری سے درست فیصلہ سازی ممکن ہوسکے گی۔ججز کی تعداد بڑھانے سے کسی جج پر غیر ضروری دباؤ میں کمی ہوگی، ججز کی بڑی تعداد فیصلوں میں متنوع آرا کا باعث بن سکتی ہیں اور پاکستان کی طرز پر عدالتی نظام رکھنے والے بہت سے ممالک میں ججز کی بڑی تعداد ہے، اس لیے ججز کی تعداد میں اضافے سے پاکستان میں بین الاقوامی معیار سے ہم آہنگ فیصلے سامنے آئیں گے۔پھر اِسی طرح نور عالم خان کا بل بھی آئندہ ہفتے ایوان میں پیش ہوگا، بل کے تحت نظر ثانی کی اپیل اس سے بڑا بینچ سننے کا مجاز ہوگا۔آئین میں ترمیم سے اطلاق ماضی کے فیصلوں پر بھی ہو گا، حکومت نور عالم خان کے نجی بل کی حمایت کرے گی۔اب سوال یہ ہے کہ جب عدلیہ سے متعلق بل لائے جارہے ہیں تو پھر اِس بات کے بھی امکانات ہیں کہ پرائویٹ ممبر بل کے ذریعے چیف جسٹس کی ایکسٹینشن کا بل آجائے ۔بہرحال نور عالم خان تو دوہری شہریت خاتمے کے ھوالے سے بھی بل ایوان میں لارہے ہیں ۔نور عالم کہتے ہیں کہ یہ بل کسی ایک مخصوص طبقے کیلئے نہیں بلکہ سب کیلئے ہے کیونکہ دوہری شہریت کسی کے پاس نہیں ہونی چاہئے۔
اب حال ہی میں جسٹس بابر ستار کی دوہری شہریت پر بھی سوال اُٹھائے گئے۔ایسے میں یہ سوال تو اُٹھ رہا ہے کہ شاید آنے والے وقت میں دوہری شہریت کے خاتمے کے قانون کوکسی خاص مقصد کیلئے استعمال کیاجائے لیکن نور عالم خان اِس بات سے انکارکر رہے ہیں ۔جبکہ علی محمد خان اِس بل کے حوالے سے کہتے ہیں کہ نور عالم خان جب کوئی بل لاتے ہیں تو ہم ویسے ہی محتاط ہوجاتے ہیں۔ بدگمانی نہیں کرتے مگر ممکن ہے یہ بل کچھ مخصوص لوگوں کو ٹارگٹ کرنے کے لیے لایا گیا ہو۔ہم ایسے کسی بل کی حمایت نہیں کر سکتے۔
اب سوال یہ بھی ہے کہ آئینی ترمیم کیلئے تو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت ہونا ضروری ہے ۔پہلے قومی اسمبلی سے بل دو تہائی اکثریت سے منظور ہوگا پھر سینیٹ میں دو تہائی اکثریت سے منظور ہوگا ۔لیکن حکومت کے پاس سینیٹ اور قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت نہیں۔یہی وجہ ہےکہ آصف زرداری مولانا فضل الرحمان سے ملے۔ اور اُنہیں بندوق تحفے میں دی ۔اب سیاسی اعتبار سے دیکھیں تو آصف زرداری مولانا کے کندھے پر بندوق رکھ کر یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اہم قانون سازیوں کیلئے زرداری مولانا کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانا چاہتے ہیں۔کیونکہ کسی بھی آئینی ترمیم کیلئے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مولانا فضل الرحمان کی حمایت انتہائی اہمیت کی حامل بن چکی ہے ۔قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کی بات کریں تو قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی کل نشستیں 111،پیپلزپارٹی 68 ایم کیو ایم 21،مسلم لیگ ق 5،آئی پی پی چار،بلوچستان عوامی پارٹی ایک،نیشنل پارٹی ایک،پاکستان مسلم لیگ ضیاء کی ایک نشست ہے۔جو کل ملا کر 212 بنتی ہے۔اگر اِن میں مولانا فضل الرحمان کی 8 نشستیں اور چار آزاد اُمیدوار ساتھ ملا لئے جائیں تو یہاں حکومت کو 224 اراکین کی حمایت حاصل ہوجائے گی یعنی قومی اسمبلی میں حکومت کو دو تہائی اکثریت مل جائے گی۔پھر اِسی طرح سینیٹ کی نمبر گیم کو دیکھیں تو سینیٹ میں پیپلزپارٹی کی 24،مسلم لیگن کی 19،بلوچستان عوامی پارٹی کیچار،ایم کیو ایم کی تین،نیشنل پارٹی ایک،اور دو آزاد اُمیدوار کی نشستیں ملا کر کُل 53 نشستیں بنتی ہے ۔اگر جے یو آئی ف کے پانچ اراکین ،اور ق لیگ کے ایک اور اے این پی کے تین اورچار اور آزاد اُمیدوار مل جاتے ہیں تو یہ کل 66 نشستیں بن جائیں گی اور آئینی ترمیم کیلئے سینیٹ میں 64 ووٹ چاہئے ہوتے ہیں جو حکومت کو آسانی سے مل جائیں گے۔اب یہی وجہ ہے کہ جے یو آئی ف قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومت کیلئے بہت اہمیت کی حامل جماعت بن چکی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ جے یو آئی ف قانون سازی میں حکومت کا ساتھ دیتی ہے یا نہیں ۔مولانا فضل الرحمان تو فرما رہے ہیں کہ زرداری صاھب ہمارے پاس آئے تھے لیکن ہماری آئینی ترمیم کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی جب آئینی ترمیم ہوگی تو ہر ہم دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے۔
اب ممکن ہے مولانا فضل الرحمان حکومت کا ہی ساتھ دیں کیونکہ تحریک انصاف کے ساتھ اِن کے معاملات پھر سے خراب ہورہے ہیں اور مولانا فضل الرحمان بھی اِس بات کا اقرار کر رہے ہیں ۔مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی سے ہماری 12 سال سے دشمنی تھی وہ ایک دم سے تھوڑی ٹھیک ہوجائے گی،اب جے یو آئی ف اور تحریک انصاف میں تکرار پھر بڑھ رہی ہے ۔تھریک انصاف کے رہنما شوکت یوسف زئی نے کل ہمارے پرورگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جے یو آئی ف ایسے مطالبات رکھ رہے ہیں جو پورے ہی نہیں ہوسکتے۔مزید دیکھئے اس ویڈیو میں 

دیگر کیٹیگریز: ویڈیوز
ٹیگز: