تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں ملی گی یا نہیں ۔۔اس کا فیصلہ الیکشن کمیشن نے محفوظ کر لیا ہے۔ یہ فیصلہ یو تو جمعہ کے روز ممکن تھا لیکن لٹکتے لٹکتے ہیں یہ فیصلہ آج ہوا ہے جو ابھی جاری نہیں کیا گیا ۔آج کیس کی سماعت ہوئی تو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے معاملے پر سماعت کی جس سلسلے میں علی ظفر، بیرسٹر گوہر، فروغ نسیم، اعظم نذیر تارڑ، کامران مرتضیٰ، فاروق نائیک اور دیگر نے دلائل دیے۔پروگرام’10تک‘میں میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ سنی اتحا دکونسل کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نےکل آرڈر کیا کہ تمام درخواستوں کو یکجا کرنا ہے، الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا اسمبلی میں موجود تمام جماعتوں کو نوٹس کیا جائے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ رات کو نوٹس کریں اور صبح جماعتیں تیار ہوں، اس سماعت کو معنی خیز کریں۔ اس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ سب جماعتوں کو نہیں اسمبلی کی متعلقہ جماعتوں کو بلایا ہے علی ظفر نے کہا کہ حقیقت یہ ہےکہ پی ٹی آئی کا نشان لیاگیا، سپریم کورٹ میں کہا تھا نشان نہیں دیں گےتو مخصوص نشست کا مسئلہ ہوگا، سپریم کورٹ کو ای سی پی کے وکیل نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا لیکن پی ٹی آئی حمایت یافتہ امیدوار مختلف نشانات پر الیکشن لڑے،علی اسمبلی میں آزاد آمیدوارسیاسی جماعتوں سے زیادہ ہیں، ابھی غیر معمولی صورت حال ہے، پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد امیدواوں کی اسمبلی میں اکثریت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آزاد امیدواروں کوکوٹے پرکیسے مخصوص نشست مل سکتی ہے، یہ سوال ہے، قومی اسمبلی میں آزاد نشستوں میں 86 نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی، سندھ میں 9، پنجاب میں 107 اور کے پی میں 90 ایم پی ایز نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی۔ علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ آپ نے جس جماعت کو رجسٹرکیا اور نشان بھی دیا وہ سیاسی جماعت ہے، الیکشن کمیشن کی فہرست میں پی ٹی آئی رجسٹرڈ جماعت ہے، نشان مل جائے تو الیکشن ایکٹ کے تحت وہ جماعت الیکشن لڑ سکتی ہے۔ اس دوران پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ سنی اتحادکونسل نےکوئی ترجیحی فہرست جمع نہیں کرائی، سیاسی جماعت کاغذات نامزدگی جمع کرانےکی تاریخ گزرجانےکے بعد ترجیحی لسٹ میں ترمیم بھی نہیں کرسکتی، قانون اتناسخت ہے کہ آپ کوئی نام تبدیل بھی نہیں کرسکتے، (ن) لیگ کے وکیل اعظم نذیر تارڑ کا دلائل میں کہنا تھا کہ ترجیحی فہرست قانون کے مطابق دی جائے گی، ایسی جماعت جس نے الیکشن میں حصہ نہیں لیاکیا آزاد ارکان اس میں شامل ہوسکتے ہیں؟ مخصوص نشست کے دعوے کیلئے سیاسی جماعت کوچند سیٹیں جیتنا لازم ہے، ایم کیو ایم کے وکیل فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قانون کی نظر میں سنی اتحاد کونسل پارلیمانی جماعت نہیں، روکی ہوئی مخصوص نشستیں ایم کیو ایم کو کوٹے کے مطابق دی جائیں ، سنی اتحاد کونسل نے جنرل الیکشن لڑا نہ ترجیحی فہرست جمع کرائی، سنی اتحاد کونسل کے سربراہ نے خود آذاد حیثیت میں الیکشن لڑا، الیکشن کمیشن آئین، قانون کے مطابق مخصوص نشستوں پر فیصلہ کرے۔ کامران مرتضیٰ نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہم اس کیس میں نہیں تھے،آپ نے بلایا تو آئے ہیں، قانون میں ہے جس جماعت کا جتنا حصہ ہے وہ اسے ملتا ہے، بطور آزاد امیدوار انہیں مخصوص نشست نہیں مل سکتی تھی، سیاسی جماعت کی فہرست ایگزاسٹ ہونے پر اس میں نیانام شامل ہوسکتا ہے، تاریخ گزر جانےکے بعدجماعت نئی ترجیحی فہرست جمع نہیں کراسکتی۔آج سماعت کے دوران چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے سنی اتحاد کونسل کا کمیشن کو لکھا خط پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کو دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں چاہییں تو آپ کیوں ان کو مجبور کر رہے ہیں۔جس پر علی ظفر نے خط سے متعلق لاعلمی کااظہار کیا۔دلائل مکمل ہونے پر سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا ج وکسی بھی وقت سنایا جا سکتا ہے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے خط کا تزکرہ کرنے سے ایک بار ایسا محسوس ہوا جیسے سنی اتحاد کونسل نے خود سے نشستیں لینے سے انکار کر دیا ہے۔لیکن اس کی وضاحت بعد میں خود حامد رضا نے کی اور بتایا الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط کی حقائق کے برعکس تشریح کی جارہی ہے۔ الیکشن کمیشن عام انتخابات کرانے کے بعد تمام پارٹیوں کو خط لکھتا ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں پانچ فیصد کوٹا خواتین کو دیا جاتا ہے، وہ خط صرف ہمیں نہیں لکھا گیا تمام جماعتوں کو لکھا گیا ہے۔ حامد رضا نے کہا کہ چونکہ سنی اتحاد نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا اس لیے ہم نے صرف یہ بتایا کہ ہم نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا اس لیے ہمارے پاس 5 فیصد خواتین کو ٹکٹ دینے کی ایسی کوئی فہرست موجود نہیں۔مزید دیکھیے اس ویڈیو میں
انتخابات کے بعد سیاسی پارہ ہائی،خطرے کی گھنٹی بج گئی
Feb 29, 2024 | 10:29:AM
Read more!