آج کل کی سیاسی پیش گوئیوں یا تجزیوں کا عالم یہ ہے کہ سب گھن چکر ہے۔اس صورتحال کو سمجھنا ہو تو سید یوسف رضا گیلانی بہترین مثال ہیں۔۔۔
ممبر سینیٹ بھی تھے۔۔اور ایم این اے بھی منتخب ہوئے۔
پتہ چلا کہ چیئرمین سینیٹ ہوں گے۔۔۔ظاہر ہے اس کے لیے قومی اسمبلی کی بجائے سینیٹ کی رکنیت درکار ہے۔۔
پھر پتہ چلا ان کی سینیٹ کی رکنیت تو اسی دن ختم ہو گئی جس دن ایم این اے منتخب ہونے کا نوٹیفکیشن ہوا۔
آج انہوں نے حلف بھی اٹھا لیا۔ یعنی جب سینیٹر نہیں رہے تو چیئرمین سینیٹ کیسے بن سکتے۔ بیچ میں انوار الحق کاکڑ کا نام بھی آ گیا۔۔۔
لیکن
پتہ یہ چلا ہے کہ
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی ہی ہوں گے۔
کیوں کہ
یہ سب "طے" ہے اور "گارنٹر" بڑے تگڑے ہیں۔ ظاہر ہے گارنٹی زرداری جی نے ہی لی ہو گی اور "ن" سے منوایا گیا ہو گا۔۔
تو پھر اب
گیلانی صاحب نے سینیٹ کی جو نشست خالی چھوڑی اس پر پھر وہ ہی منتخب ہوں گے۔۔جس کا حلقہ انتخاب قومی اسمبلی ہے۔
اس کے لیے پیپلز پارٹی نے سینیٹ کی خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن کے لیے الیکشن کمیشن کو خط بھی لکھ دیا ہے۔( یہ واضح رہے چھ سالہ مدت کے لیے سینیٹ کے آدھے ممبران کا بارہ مارچ تک جو چناؤ ہونا وہ ایک الگ معاملہ ہے، یہاں سے منتخب ہونے کا آپشن بھی موجود ہے)۔۔۔
تو جناب
گیلانی صاحب جب ایک بار پھر سینیٹ کے ممبر منتخب ہوں گے اور چیئرمین سینیٹ بھی بن جائیں گے تو۔۔۔
قومی اسمبلی کی ان کی خالی کردہ نشست پر ان کے ہی صاحبزادے ضمنی الیکشن میں اتحادیوں کے متفقہ امیدوار بھی ہوں گے۔۔۔
تو ہے نا گھن چکر۔۔۔
ملکی سیاسی منظر نامے کی بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔۔
ہر طرح کا راستہ نکال لیا جاتا۔۔نوٹینشن۔۔۔۔
نوٹ :بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر