(امانت گشکوری )سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسی نظر ثانی کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ یا کوئی ادارہ سپریم جوڈیشل کونسل کو کارروائی کا نہیں کہہ سکتا۔ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دینا غلط تھا۔
یہ بھی پڑھیں:جب تک دولت نہیں بڑھتی غربت کم نہیں کی جا سکتی ۔۔۔وزیر اعظم عمران خان
تفصیلات کے مطابق عدالت نے 9 ماہ دو دن بعد نظر ثانی درخواستوں کا تحریری فیصلہ جاری کیا۔دس رکنی لارجر بینچ نے چھ چار کے تناسب سے سرینا عیسی کے حق میں فیصلہ سنایاجبکہ جسٹس یحی آفریدی نے اضافی نوٹ تحریری کیا۔ سپریم کورٹ نے مختصر فیصلہ 26 اپریل 2021 کو سنایا تھا۔تحریری فیصلہ جسٹس مقبول باقر،جسٹس مظہر عالم ،جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس امین الدین نے تحریر کیا۔
سپریم کورٹ کی طرف سے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ہر شہری اپنی زندگی،آزادی،ساکھ،جائیداد سے متعلق قانون کے مطابق سلوک کا حق رکھتا ہے۔آئین کے آرٹیکل 9 سے 28 تک ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔اگر کوئی شہری پبلک آفس ہولڈر ہے تو اسے بھی قانون کا تحفظ حاصل ہے قطع نظر کسی عہدہ یا پوزیشن کے ہر پاکستان قانون کے مطابق سلوک کا حقدار ہے۔یہ فیصلہ واضح الفاظ کیساتھ سنایا جاتا ہے کہ اس عدالت کے جج سمیت کوئی قانون سے بالاتر نہیں۔کوئی بھی شخص چاہے وہ اس عدالت کا جج کیوں نہ ہو اس کو قانونی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔سپریم کورٹ کی جانب سے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دینا غلط تھا۔ججز کیخلاف کارروائی صدر پاکستان کی سفارش پر سپریم جوڈیشل کونسل کر سکتی ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسی اور انکے اہل خانہ کا ٹیکس ریکارڈ غیر قانونی طریقے سے اکٹھا کیا گیاجبکہ مرکزی کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسی اور انکی اہلیہ کا مکمل موقف نہیں سنا گیا
تحریری فیصلے میں لکھا گیا کہ کسی ایک جج کیخلاف کارروائی سے پوری عدلیہ کی آزادی پر سوال اٹھتا ہے۔ جسٹس فائز عیسی نے کہا انکی اہلیہ کے ٹیکس معاملات میں ان کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔آئین کے مطابق بنچ میں اکثریتی فیصلے کو ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ تصور کیا جاتا ہے۔جج کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق اہل خانہ کے معاملات پر جوابدہ نہیں۔جج اپنی اہلیہ اور بچوں کے معاملات کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔ہر شخص کو اپنے کئے ہوئے اعمال کا حساب دینا ہوتا ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ جب تک ملوث ہونے کے واضح ثبوت نہ ہوں کسی اور کی غلطی پر دوسرے کو سزا نہیں دی جاسکتی۔سپریم کورٹ یا کوئی ادارہ سپریم جوڈیشل کونسل کو کارروائی کا نہیں کہہ سکتا۔صدر مملکت کی سفارش کے بغیر سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی نہیں کر سکتی۔فیصلے میں لکھا گیا کہ ججز کے تحفظ،احتساب اور ہراسگی سے بچانے کا فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے۔سپریم کورٹ از خود نوٹس کا اختیار سپریم جوڈیشل کونسل پر استعمال نہیں کر سکتی۔سپریم جوڈیشل کونسل کو سپریم کورٹ کا حکم آرٹیکل 211 کی خلاف ورزی ہے۔فیصلے میں مزید لکھا گیا کہ بعض اوقات ججز کی ساکھ متاثر کرنے کیلئے کوششیں ہوتی ہیں۔ججز کے پاس اپنی صفائی پیش کرنے کیلئے عوامی فورم بھی نہیں ہوتا۔ایسی صورتحال میں عدلیہ کی بطور آئینی ادارہ عوام کی نظر میں ساکھ متاثر ہوتی ہے۔
فیصلے میں لکھا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو احکامات دیئے گئے۔جسٹس قاضی فائز عیسی اور انکی اہلیہ کو نوٹس دیکر دفاع کا حق دینا چاہیے تھا۔فیصلے اضافی نوٹ میں لکھا گیا کہ سپریم کورٹ کے 19 جون 2020 کے فیصلے میں ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دیا گیا۔ ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دینا آرٹیکل 211 اور انکم ٹیکس آرڈیننس کی حدود سے باہر تھا۔سپریم کورٹ سمیت کوئی بھی عدالت سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی،جوڈیشل کونسل کو اختیار ہے کہ اعلی عدلیہ کے جج کے خلاف کارروائی مثبت طریقہ کار سے کرے۔اختلافی نوٹ میںلکھا گیا کہ ایسی کارروائی پر عدالتوں کو کونسل کی بالادستی اور آئینی آزادی برقرار رہنے دینی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں:کورونا وائرس ۔۔۔امریکا نے 16ممالک پر پابندی لگا دی