سپریم کورٹ کا صحافیوں کیخلاف نوٹسز فوری واپس لینے کا حکم
صحافیوں کی ہی نہیں، ججز کی بھی آزادی اظہار رائے ہوتی ہے،قدرت کا نظام دیکھیں کہ ہم نے ازخود نوٹس کورٹ نمبر 2 میں لیا لیکن معاملہ 5 رکنی بینچ کے پاس ازخود نوٹس کے اختیار کے لیے چلا گیا:چیف جسٹس
Stay tuned with 24 News HD Android App
(امانت گشکوری)سپریم کورٹ میں صحافیوں اور یوٹیوبرز کو ایف آئی اے کی جانب سے جاری نوٹسز پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ صحافیوں کی ہی نہیں، ججز کی بھی آزادی اظہار رائے ہوتی ہے۔عدالت نے حکم جاری کرتے ہوئے اسد طور، مطیع اللہ جان، عمران شفقت اور عامر میر پر تشدد کے خلاف کارروائی پر رپورٹ طلب کرلی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 3 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور صدر پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ عقیل افضل عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کتنے کیسز ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ 4 درخواستیں ہیں جن میں قیوم صدیقی اور اسد طور درخواستگزار ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا جرنلسٹ ڈیفنس کمیٹی کے پاکستان بار کے نمائندے موجود ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جرنلسٹ ڈیفنس کمیٹی اب ختم ہو چکی۔
اس دوران وکیل حیدر وحید نے کہا کہ ہم نے وفاقی حکومت کو آزادی اظہار رائے کو ریگولیٹ کرنے کا حکم دینے کی درخواست کی تھی، اس پر چیف جسٹس نے حیدر وحید سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ کی درخواست بعد میں دیکھیں گے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سب سے پہلے تو قیوم صدیقی بتائیں کہ کیس خود چلانا ہے یا پریس ایسوسی ایشن کے صدر دلائل دیں گے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قدرت کا نظام دیکھیں کہ ہم نے ازخود نوٹس کورٹ نمبر 2 میں لیا لیکن معاملہ 5 رکنی بینچ کے پاس ازخود نوٹس کے اختیار کے لیے چلا گیا، 5 رکنی بینچ نے طے کیا کہ 184 (3) کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار صرف چیف جسٹس کا ہے۔انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ صحافیوں کی ہی نہیں، ججز کی بھی آزادی اظہار رائے ہوتی ہے۔
صحافی عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ میں کچھ حقائق سامنے رکھنا چاہتا ہوں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے تو کہا تھا کہ آپ اس کیس کو چلانا نہیں چاہتے؟عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ جب معاملہ جسٹس اعجازالاحسن کے بینچ میں گیا تو کہا تھا کہ کیس نہیں چلانا چاہتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے کیس نمٹانے کے بجائے 2021 سے سرد خانے میں رکھ دیا، بتائیں کہ تب کیا درخواست تھی آپ کی اور اب کیا ہے؟
دریں اثنا چیف جسٹس نے صحافیوں پر مقدمہ درج کرنے سے روکتے ہوئے ریمارکس دیے کہ حکومتِ پاکستان کی طرف سے اٹارنی جنرل بیان حلفی دیں گے کہ تنقید پر کسی کی گرفتاری نہیں ہوگی۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ اس تمام معاملے میں صحافیوں کا خصوصی خیال رکھا جائے، آئینِ پاکستان تنقید کی اجازت دیتا ہے، ہم اس کیس کو کل چلائیں گے۔
ایف آئی اے سے صحافیوں پر تشدد کیخلاف کارروائی پر رپورٹ طلب
دریں اثنا سپریم کورٹ نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھواتے ہوئے اسد طور، مطیع اللہ جان، عمران شفقت اور عامر میر پر تشدد کے خلاف کارروائی پر رپورٹ طلب کرلی۔حکم نامے میں عدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ بتایا جائے کہ مقدمات میں اب تک کیا پیش رفت ہوئی ہے؟ آگاہ کیا گیا ہے کہ ملزمان کا تعلق وفاقی حکومت کے ماتحت حساس ادارے سے ہے، وفاقی حکومت صحافیوں پر تشدد کے خلاف رپورٹ 2 ہفتے میں فراہم کرے۔
حکم نامے میں مزید ریمارکس دیے کہ تفتیشی افسر یقینی بنائے کہ صحافیوں کو ایف آئی اے کی جانب سے جاری نوٹسز سے آگاہ کیا گیا، بتایا گیا کہ نوٹسز عدالت کو تنقید کا نشانہ بنانے پر جاری کیے گئے ہیں، تنقید کرنا ہر شہری اور صحافی کا حق ہے۔
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ معاملہ صرف تنقید تک ہے تو کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے، اٹارنی جنرل نے حکومت کی جانب سے تنقید پر کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی کروادی۔
عدالت نے طلب کیے گئے صحافیوں کےخلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے روک دیا اور ڈی جی ایف آئی اے کو صحافیوں کے ساتھ ملاقات کرنے کی ہدایت کر دی۔عدالت نے حکم نامے میں ایف آئی اے حکام سے بھی وضاحت طلب کی ہے کہ صحافیوں کو کیوں بلایا گیا ہے؟عدالت نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف ازخود نوٹس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان اور ریاستی اداروں کے خلاف غلط معلومات اور منفی پروپیگنڈے کی تشہیر پر ایف آئی اے نے 47 صحافیوں اور یوٹیوبرز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے طلب کر لیا تھا۔