(24 نیوز)تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشتگردوں کے خاندانوں کی کسم پُرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ متاثرہ خاندان کے بچوں کا کہنا ہے کہ طالبانوں نے انکی زندگیاں برباد کردی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ٹی ٹی پی سے وابستہ مارے گئے ایک دہشتگرد کے ننھے بچے کا کہنا ہے کہ میرے والد کو طالبان لے گئے تھے، کچھ عرصہ پہلے رابطہ ہوا تو پتا چلا کہ وہ افغانستان میں تھے،ان کے جانے کے بعد ہم در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، میں اب کباڑ اکٹھا کرنے کا کام کرتا ہوں اور بمشکل 100 یا 200 کماتا ہوں ۔
بچے نے کہا کہ ہم لوگ بڑی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں، دہشت گرد اس کو جہاد کے نام پر ورغلا کر ساتھ لے گئے ہیں اور اس کا کوئی پتہ نہیں چل رہا،میرے والد کے جانے کے بعد میری والدہ جو بیمار ہے لوگوں کے گھروں کام کرنے پر مجبور ہےاور اس کے علاج کے پیسے بھی نہیں ہیں ہمارے پاس،ہماری زندگی برباد ہوگئی میری ماں پوری پوری رات رو کے گزارتی ہے میرے چھوٹے چھوٹے بھائی بہن یتیموں کی طرح ہیں۔
متاثرہ بچے کا مزید کہنا ہے کہ طالبانوں نے ہماری زندگیاں برباد کردی ہیں ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ، طالبان کو اللہ غرق کرے ،میرا بھائی 18 سال کا تھا کہ طالبان اسے جھوٹ کا لالچ دے کر اپنے ساتھ لے کر چلے گئے اور اسے پاکستان کے خلاف لڑنے کا کہہ رہے ہیں،طالبان بہت ظالم لوگ ہیں وہ اسے جھوٹ بول کر ساتھ لے گئے ہیں،میں اپنے بھائی سے کہنا چاہتاہوں کہ ان کو چھوڑ کر واپس ہمارے پاس آ جائے ۔
اس نے کہا کہ بھائی کے جانے کے بعد ہمیں اپنا گھر بیچنا پڑا اور بڑی مشکل سے پیسے کما کر گزارہ کر رہے ہیں ،میں مہمند کا رہنے والا ہوں میرا والد پچھلے 5 سال سے طالبانوں کے ساتھ افغانستان میں ہے،اس وقت سے لاپتہ ہے اور ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔
متاثرہ خاندان کے بچے نے اپنے چھوٹے بھائیوں کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ میرے دونوں بھائی ہیں ایک پانی بیچتا ہے اور چھولے بیچتا ہے ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں کہ سکول کی فیس ادا کرسکوں،مشکل کے 200 روپے کماتے ہیں ہمارا کمانے والا کوئی نہیں ہے والدہ ہماری بیمار ہے۔
متاثرہ خاندان کی بیوہ کا کہنا ہے کہ میں باجوڑ کی رہنے والی ہوں میرے شوہر کو دس سال پہلے طالبان اپنے ساتھ افغانستان لے کر گئے اس وقت سے اب تک اسکے زندہ یا مردہ ہونے کا کوئی پتہ نہیں،میرے بچے ہیں وہ یتیموں کی طرح اور میں اس وقت سے ایک بیوہ کی حثیت سے زندگی گزار رہی ہوں۔
اس نے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ میری یہ درخواست ہے کہ میرے شوہرکو واپس کیا جائے تاکہ میرے بچوں کےلیے گھر میں کچھ کھانے پینے کا انتظام تو ہوسکے۔
ایک اور متاثرہ خاندان کے بچے کا کہنا ہے کہ میں مردان کا رہنے والا ہوں، میرے بھائی کو آٹھ مہینے پہلے جھوٹ بول کر جہاد کے نام پر دہشت گرد اپنے ساتھ لے گئے ہیں ،تقریباََ ایک مہینہ پہلے اس نے گھر رابطہ کیا تھا کہ دہشت گرد مجھے پاکستان کے خلاف لڑنے کا کہہ رہے تھے جو میں نہیں کرنا چاہتا تھا، اسی وجہ سے اس کو انہوں نے قید میں رکھا ہوا ہے،میرے والد کافی عرصے سے بیمار ہیں ہمارے پاس اس کے علاج معالجے کے پیسے بھی نہیں ہیں میں بڑی مشکل سے دن کے 100یا 200کماتا ہوں۔
بچے نے مزید کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میرا بھائی واپس آجائے تاکہ ہم دونوں مل کرگھر کے نظام کو بہتر کر سکیں۔
ایک اور متاثرہ بچے نے کہا کہ میرا والد تقریباََ پانچ سالوں سے دہشت گردوں کے ساتھ افغانستان کی طرف چلا گیا، اسکے بعد اسکا کوئی پتہ نہیں کہ وہ کدھر ہیں،میری طرح میرا چھوٹا بھائی بھی بوٹ پالش کرتاہے ہم بڑی مشکل سے 200 یا 300 روپے دن کے کماتے ہیں، جس سے بڑی مشکل سے گزارہ ہوتا ہے،ہمارے پاس سکول جانے کی فیس نہیں ہے،جو پیسے کماتے ہیں وہ سارے پیسے اپنی ماں کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں, گزر بسر بہت مشکل ہو گئی ہے۔