حکومتیں گرانے اور بنانے میں آزاد امیدواروں کا کردار 

رپورٹ :وسیم شہزاد | عام انتخابات 2024 میں 11,785 آزاد امیدوارقومی و صوبائی نشستوں پر مد مقابل ، اگر یہ آزاد امیدوار بڑی تعداد میں کامیاب ہو گئے تو پارلیمںٹ میں ہارس ٹریڈنگ بڑھے گی ۔ماہرین

Jan 29, 2024 | 15:15:PM

اس وقت پاکستان سمیت پوری دنیا کی نگاہیں 8 فروری پر ٹکی ہیں کیونکہ یہ دن پاکسان میں الیکشن کا دن ہے ، پاکستان کی یخ بستہ ہواؤں میں سیاسی پارہ اس وقت ہائی ہے ۔ یہ الیکشن اس لیے بھی خاص اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں باقی جماعتوں کے امیدوار اپنی جماعتی پینل جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد حیثیت سے لڑ رہے ہیں ، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ آزاد امیدوار جیت بھی گئے تو ان کی حیثیت کیا ہو گی؟


اس سوال کا جواب دیتے ہوئے  سیاسی ماہر مظہر جاوید کا کہنا ہے کہ  پاکستان کی ایک بڑی جماعت کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے الیکشن کمیشن کا انتخابی نشان واپس لینے سے اس پارٹی کے تمام امیدوار قومی و صوبائی اسمبلی کو آزاد تصور کیا گیا ہے ، مظہر جاوید دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر پاکستان تحریک انصاف کے نام پر یہ آزاد امیدوار بڑی تعداد میں کامیاب ہو بھی گئے تو پارلیمںٹ میں ہارس ٹریڈنگ کی تاریخ کی سب سے بڑی منڈی لگے گی ۔

ماضی میں اسمبلی میں منتخب ہونے والے آزاد امیدواروں کی حیثیت؟
پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چئیرمین آصف زرداری کا 2018 میں کہنا تھا کہ عام انتخابات میں جیتنے والے آزاد امیدوار اگلی حکومت کے قیام میں اہم کردار ادا کریں گے۔ نظریاتی طور پر دیکھیں تو یہ بات اس وقت درست ہوئی جب 2018 میں کوئی بھی جماعت سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکی اور ان کو حکومت بنانے کے لیے آزاد امیدواروں کی ضرورت پیش آئی ، اور اس دوران آزاد امیدواروں کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ۔


آزاد امیدواروں کا سیاسی جماعتوں کی طرف رجحان ؟
معروف سیاسی تجزیہ کار سجاد سولنگی کے مطابق آزاد امیدوار ہمیشہ ہوا کا رخ دیکھتے ہیں اور ممکنہ حکومت بنانے والی جماعت میں شامل ہو کر حکومتی بینچوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنی شرائط کے مطابق وزیراعظم منتخب کرانے  کیلئے اپنے ووٹ کا وزن حکومتی جماعت کے پلڑے میں ڈال دیتے ہیں ، وہ کہتے ہیں ہمارے انتخابی نظام میں کامیاب آزاد امیدواروں کو ابتدائی نتائج کے اعلان کے بعد 3 روز کے اندر کسی بھی جماعت میں شمولیت کرنی پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر وہ کسی جماعت میں شامل نہیں ہوتے تو آزاد تصور ہونگے ، سجاد سولنگی نے بتایا کہ 2002ء میں 18 میں سے 16 کامیاب آزاد امیدواروں نے مسلم لیگ (ق) میں شمولیت اختیار کی۔جبکہ 2008ء میں جیتنے والے 19 کامیاب آزاد امیدواروں میں سے 9 نے پاکستان پیپلز پارٹی میں جبکہ 2013ء میں آزاد امیدوار (فاٹا کو چھوڑ کر) 22 حلقوں میں کامیاب ہوئے جن میں سے صرف 3 کے علاوہ باقی سب نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کے آزاد امیدوار حکومتیں بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جس طرح 2002 میں ق لیگ کی حکومت بنی اور 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی اور 2013 میں مسلم لیگ ن اور 2018 میں آزاد امیدواروں کے سہارے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ممکن ہوئی ۔ 
ماضی قریب کی بات کرتے ہوئے سجاد سولنگی کا کہنا تھا کہ سینٹ کے انتخابات میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے ، کس طرح سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی کو منتخب کیا گیا ، وہ کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان، بلوچستان اور آزاد کشمیر کے وزرائے اعلیٰ اور وزیراعظم کو جس طرح ان کے عہدے سے ہٹایا گیا یہ سب اسی گورکھ دھندے کا حصہ ہے ، جس میں جب بھی کوئی چاہتا ہے ان منتخب آزاد امیدواروں کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کر لیتا ہے۔

قومی و صوبائی نشستوں پر امیدواروں کی تعداد 
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق ملک کے عام انتخابات 2024 میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر 17,800 سے زائد امیدوار حصہ لیں گے، جن میں 11,785 آزاد امیدوار بھی شامل ہیں۔8 فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے امیدواروں کی تفصیلی فہرست جاری کی گئی ہے جس کے مطابق قومی اسمبلی کی 266 نشستوں کے لیے کل 5,121 امیدوار میدان میں ہیں۔ان میں سے 6,031 امیدواروں کی سیاسی جماعتوں سے وابستگی ہے۔قومی اسمبلی کی نشستوں کی دوڑ میں 4,807 مرد، 312 خواتین اور دو خواجہ سرا ہیں۔ مزید برآں، صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے کل 12,123 مرد، 570 خواتین، اور دو خواجہ سرا امیدوار حصہ لیں گے۔ای سی پی کے اعداد و شمار کے مطابق، قومی اسمبلی میں سیاسی جماعتوں سے وابستہ 1,780 مرد امیدوار ہیں، جب کہ 93 خواتین کے پاس پارٹی ٹکٹ ہیں، جن کی مجموعی تعداد 1,873 ہے۔ اس کے باوجود، پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کے لیے آزاد امیدواروں کی تعداد تقریباً دو گنا زیادہ ہے، جن میں 3,027 مرد، 219 خواتین، اور دو خواجہ سرا ہیں، جن کی کل تعداد 3,248 ہے۔

چاروں صوبائی اسمبلیوں کی جنرل نشستوں کے انتخابی مقابلے میں، 3,976 مرد پارٹی وابستگی رکھتے ہیں، جن میں خواتین کی تعداد 182 ہے، جو مجموعی طور پر 4,158 بنتی ہے۔ اس کے برعکس پارٹی وابستگی کے بغیر آزادانہ طور پر الیکشن لڑنے والوں کی تعداد 8,537 ہے۔اس میں 8,147 مرد امیدوار، 388 خواتین امیدوار، اور صوبائی اسمبلیوں میں حصہ لینے والے دو خواجہ سرا شامل ہیں۔جیسا کہ فارم 33 میں بتایا گیا ہے، پنجاب میں 6,710 امیدواروں کا ایک مجموعہ نظر آتا ہے، جن میں دونوں جنس شامل ہیں، پارٹیوں سے وابستہ ہیں یا صوبائی اسمبلی کی جنرل نشستوں کے لیے آزادانہ طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اسی طرح، سندھ میں، مجموعی طور پر مرد اور خواتین امیدواروں کی تعداد 2,878 ہے، جن میں پارٹیوں سے وابستہ اور آزاد امیدوار شامل ہیں۔صوبوں کے حلقے میں، خیبر پختونخوا واحد صوبہ ہے جہاں دو خواجہ سرا جنرل نشستوں کے لیے میدان میں ہیں۔اس کے علاوہ، 1,763 مرد امیدوار اور 63 خواتین ہیں، جس سے کل تعداد 1,834 ہو گئی ہے۔ اسی طرح، بلوچستان میں، اجتماعی گنتی میں وابستگیوں اور آزاد امیدواروں کی تعداد 1,273 ہے، جن میں 1,233 مرد اور 40 خواتین شامل ہیں۔اپیلوں کے معاملے میں، اپیلٹ ٹربیونلز کو کل 2,373 اپیلیں موصول ہوئیں جن میں کاغذات نامزدگی کی منظوری اور مسترد ہونے کا موازنہ کیا گیا۔ ان میں سے 178 اپیلیں کاغذات نامزدگی کی منظوری کے خلاف اور 2195 مسترد ہونے کے خلاف تھیں۔ کل اپیلوں میں سے ٹربیونلز نے 1,611 کو منظور کیا اور 762 کو مسترد کر دیا۔
آزاد امیدواروں کی سیاسی جماعتوں کے لیے حیثیت؟
معروف صحافی مظہر جاوید کہتے ہیں کہ اکثریتی جماعتوں کے لیے یہ آزاد امیدوار نعمت ثابت ہوتے ہیں کیوں کہ ان سے نہ صرف جماعت کی نشستوں میں اضافہ ہوجاتا ہے، بلکہ ان سے ملنے والی مخصوص نشستوں کی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے۔ ہر 9 عمومی نشستیں جیتنے پر ایک جماعت کو خواتین کے لیے 2 مخصوص نشستیں ملتی ہیں۔ 2013ء میں جب 19 کامیاب آزاد امیدواروں نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی، تو جماعت کو خواتین کے لیے مخصوص 4 نشستیں ملی یوں نشستوں کی تعداد میں 23 نشستوں کا اضافہ ہوگیا۔گزشتہ 2 انتخابات میں کامیاب آزاد امیدواروں نے صرف اس جماعت کو مضبوط کرنے کا کام کیا ہے جس کے پاس پہلے سے ہی حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ نشستیں موجود تھیں۔ مگر 2002 میں اگر آزاد امیدوار مسلم لیگ (ق) میں شامل نہ ہوتے تو جماعت کو اکثریت حاصل نہ ہوپاتی۔
معروف صحافی جمشید رضوانی کہتے ہیں کہ 2013 میں آزاد امیدوار قومی اسمبلی کے ہر پانچویں حلقے میں یا تو فاتح تھے یا پھر دوسرے نمبر پر۔ حقیقی اعداد و شمار میں 2013 میں ایسے 56 حلقے تھے اور اس سے پہلے کے 2 انتخابات میں بالترتیب 40 اور 46 ۔ مگر اس اہم موجودگی کے باوجود حلقوں، الیکٹیبلز اور آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑنے کے ان کے فیصلے کے درمیان کوئی واضح تعلق موجود نہیں تھے۔ صرف 2 ایسے حلقے تھے  جنہوں نے گزشتہ 3 میں سے 2 انتخابات میں ایک ہی آزاد امیدوار کو کامیابی دلوائی۔ وہ کہتے ہیں کہ ثمینہ بھروانہ 2002ء اور 2008ء میں این اے 90 جھنگ 5 سے آزاد امیدوار کے طور پر کامیاب ہوئیں اور علی محمد مہر انہی انتخابات میں این اے 201 گھوٹکی 2 سے آزاد امیدوار کے طور پر کامیاب ہوئے۔

مہر 2013ء میں بھی کامیاب ہوئے مگر پی پی پی کے ٹکٹ پر، جبکہ بھروانہ 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر انتخابات ہار گئیں۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی کی صرف 4 دیگر نشستیں ایسی ہیں جنہوں نے گزشتہ 3 میں سے 2 انتخابات میں آزاد امیدوار کو جتوایا، مگر ہر دفعہ کامیاب امیدوار پہلے سے مختلف تھا۔ جمشید رضوانی کا کہنا ہے کہ  شاید ہی ایسے کوئی حلقے ہوں جنہیں آزاد امیدواروں کو جتوانے کی 'عادت' ہے، اور ایسے کوئی بھی الیکٹیبلز نہیں ہیں، جو پارٹی سے الحاق کے بغیر یقینی طور پر انتخاب جیت سکتے ہوں۔ الیکٹیبلز آزاد امیدوار کے طور پر لڑنے یا نہ لڑنے کا فیصلہ کسی بھی انتخابات میں سیاسی ماحول کو دیکھ کر ہی کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اگر ماضی قریب کی بات کی جائے تو پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی تحریک ہو یا اعتماد کا ووٹ سب میں مرکزی کردار انہی آزاد امیدواروں کا رہا ہے ، اسی طرح پنجاب اسمبلی میں بھی پرویز الٰہی اور حمزہ شہباز کو وزیر اعلٰی بنانے کے لیے انہی لوگوں کا سہارا لیا گیا ، چاہے وہ پاکستان تحریک انصاف یا مسلم لیگ ن کے رکن تھے منحرف ہو کر وزیر اعلی بناتے رہے ۔
آزاد امیدوار آزاد لڑنے کا فیصلہ کیسے کرتے ہیں؟
ایڈیٹر روہی نیوز امجد بخاری کا کہنا ہے کہ آزاد امیدواروں کے لیے یہ اہم فیصلہ مضبوط عوامی تاثر (یا مقامی زبان میں 'ہوا') کی وجہ سے آسان ہوجاتا ہے کہ کون سی سیاسی جماعت اگلی حکومت بنائے گی۔ پھر وہ اس جماعت کا ٹکٹ لینے کے لیے قطار میں لگ جاتے ہیں اور صرف تب آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑتے ہیں جب انہیں وہاں سے منع کردیا جائے ہے تو ان کے پاس اس جماعت میں شمولیت کا راستہ اس صورت میں کھلا رہتا ہے جب ممکنہ طور پر وہ فرد اور وہ جماعت، دونوں ہی انتخابات میں کامیاب ہوجائیں۔لیکن اگر ’ہوا‘ کسی مخصوص سمت میں نہ چل رہی ہو، تو الیکٹیبلز خود کو کسی مخصوص سیاسی جماعت کے ساتھ وابستہ کرنے میں ہچکچاتے ہوئے آزاد امیدوار کے طور پر لڑنے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ بظاہر موجودہ حالات میں ان کے پاس ایسا کرنے کے لیے اچھی وجوہات موجود ہیں کیوں کہ سیاسی پنڈتوں نے ایک تقسیم شدہ مینڈیٹ اور ایک معلق پارلیمنٹ کی پیشگوئی کی ہے، اور کوئی بھی الیکٹیبل شکست خوردہ جماعت کے ساتھ وابستہ نہیں ہونا چاہے گا۔
سابقہ آزاد امیدواروں کی اپنے متعلق رائے کیا ہے؟
پی پی 217 سے آزاد حیثیت سے 2018 میں 35 ہزار 2 سو 94  ووٹ سے ممبر صوبائی اسمبلی بننے والے سلمان نعیم کا کہنا ہے کہ کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جن پر اندرونی اختلافات کی وجہ سے جماعت کی نظرِ کرم ختم ہوچکی ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے بھی الیکٹیبلز اپنے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی کیفیت کا شکار ہیں۔ پرانے حلقوں کے کچھ حصوں کو ملا کر نئے حلقے بنانے کی وجہ سے پچھلی بار کے کامیاب امیدوار ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ بھلے ہی وہ ایک ہی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں۔ اب چوںکہ ان کی جماعت ان میں سے صرف ایک کو ٹکٹ دے گی۔ اس لیے دوسرے کو بہرحال آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑنا ہوتا ہے۔


سلمان نعیم کہتے ہیں کہ الیکشن 2018 میں انکا رجحان پاکستان تحریک انصاف کی طرف تھا مگر تحریک اںصاف کی جانب سے ٹکٹ نہ ملنے پر انہوں نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا ۔ اور جیتنے کے بعد اسی پارٹی میں شمولیت اختیار کی جس نے مجھے ٹکٹ نہیں دی، شمولیت کے لیے جب مجھ سے رابطے ہوئے تو مجھے محسوس ہوا کہ اگر ٹکٹ کے اوپر جیت بھی جاتا تو مجھے اتنی اہمیت نہ ملتی جتنی اب مل رہی ہے کیونکہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے پاس پنجاب اسمبلی میں اکثریت نہیں تھی ، اکثریتی جماعت مسلم لیگ ن تھی مگر آزاد حیثیت سے جیتنےو الے ایم پی ایز کو اکٹھا کر کے تحریک انصاف کو اکثریت ملی جس کی وجہ سے پی ٹی آئی پنجاب حکومت بنابے میں کامیاب ہوئی ۔ 


شہر ملتان سے این اے 149 سے آزاد حیثیت سے تعلق رکھنے والے سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ کئی الیکٹیبلز کو طاقت کے دوسرے مراکز بشمول کی جانب سے مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ کچھ گارنٹیوں کے بدلے میں وفاداریاں تبدیل کرلیں۔ وہ کہتے ہیں کہ الیکٹیبلز ماہرین کی پیشگوئیوں اور 'خفیہ مشوروں' کو اہمیت دیتے ہیں مگر وہ ’ہوا‘ کی سمت یا عوامی رجحان کے اپنے ذاتی تجزیوں کو بالکل نظرانداز نہیں کرتے۔ آزاد امیدوار کے طور پر لڑنا کبھی بھی ان کا پہلا انتخاب نہیں ہوتا، کیوں کہ 'پارٹی ووٹ' سے ہاتھ دھونا وہ خطرہ ہے جو کہ آخر میں انہیں بھاری پڑسکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ 2013 میں آزاد امیدواروں کی جیتی گئی نشستوں کا اوسط مارجن 13,201 تھا جبکہ آزاد امیدواروں کے خلاف جماعتی امیدواروں کا 32,758 تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آزاد امیدواروں کے لیے جماعت کے نامزد کردہ امیدواروں کے مقابلے میں جیتنا زیادہ مشکل تھا۔ مگر 2002ء میں دونوں گروہوں کی جیت کا مارجن ایک جیسا ہی تھا۔ وہ کہتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ 2002ء میں بھلے ہی کسی الیکٹیبل نے جماعت کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا ہو یا آزاد حیثیت میں، اس سے ان کے مقابلے کی صلاحیت پر کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ مگر جب اگلے 2 انتخابات میں جماعتی سیاست مضبوط ہوئی، تو جماعت کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے کے واضح فوائد سامنے آئے۔ اشارے یہ کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہمات اس دفعہ اور بھی زیادہ تند و تیز ہوں گی، بالخصوص پنجاب میں۔ اس کی وجہ سے جماعتوں کے ووٹ بینکس میں اضافہ ہوگا اور آزاد الیکٹیبلز کی شخصی دھاک کافی کمزور پڑجائے گی۔


استحکام پاکستان پارٹی کے صدر علیم خان نے پی ٹی آئی امیدواروں سے متعلق بڑا دعویٰ کیا ہے۔آئی پی پی کے صدر علیم خان نے دعویٰ کیا ہےکہ پی ٹی آئی کے کئی امیدواروں نے آزاد حیثیت سے جیتنے کے بعد استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہونے کا و عدہ کیا ہے تاہم علیم خان نے ان امیدواروں کے نام بتانے سے گریز کیا۔انہوں  نے کہا کہ بہت سے افراد ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں، کئی پرانے دوست ہیں ان سے تعلق رہا ہے۔
ان تمام عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ صورتحال رہی تو کہا جا سکتا ہے کہ آزاد امیدواروں کا اپنا کوئی وزن نہیں ، وہ اگر کسی کے نام بھی جیت جائیں تو ہارس ٹریڈنگ ہو گی ، جس سے آزاد امیدواروں کا نظریہ بھی دفن ہو جائے گا ، اور یہ بات بھی ثابت ہو جائے گی کہ جتنا آزاد امیدواروں کے ہاتھوں سیاسی پارٹیز بلیک میل ہوتی ہیں اس سے کہیں زیادہ بولیاں لگنے کے بعد آزاد امیدواروں کو پارٹیز کی ماننا پڑتی ہیں ، ایسی صورتحال میں وہ نظریہ جس کے تحت عوام نے آزاد امیدوار کو جتوایا اس نظریہ کا کیا یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟

ضروری نوٹ :رپورٹ میں مختلف شخصیات کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر 

رپورٹر کاتعلق ملتان سے ہے،گزشتہ 8 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، سیاست، ماحولیات ، علاقائی و سماجی مسائل ، تعلیم ، کلچر ادب ، سیاحت و آثار قدیمہ ، انسانی حقوق اور پسماندہ طبقوں کو درپیش مسائل سے متعلق رپورٹنگ کرتے رہے ۔

مزیدخبریں