(ویب ڈیسک)’رضوانہ کو انصاف دو‘دنیا بھر کے سوشل میڈیا صارفین یک زبان ہوگئے۔
ڈاکٹر الفرید ظفر کا کہنا تھا کہ رضوانہ نے 8 روز سے کچھ نہیں کھایاتھا، فی الحال اسے کھانے سے روک دیا ہے کیونکہ کھانا سانس کی نالی میں جاسکتا ہےاور خوراک کی کمی کیلئے ڈرپ لگائی جارہی ہیں۔ جس سےاس کا بلڈ پریشر لیول بھی نارمل ہے۔ گھریلوملازمہ رضوانہ کاعلاج کرنے والے ڈاکٹر پروفیسر فریدالظفر نے کہا ہے کہ بچی کا جگر اور گردے کا انفیکشن بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہے جس وجہ سے اسکی طبیعت صبح خراب ہوگئی تھی جس سے بچی کو آکسیجن لگا دی گئی۔ آکسیجن لیول کم ہونے سے انفیکشن پورے جسم میں پھیل گیا تھا۔رضوانہ کی طبیعت دیکھنے کے بعد آکسیجن اتارنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
اسلام آباد میں سول جج عاصم حفیظ کی اہلیہ کی جانب سےگھریلو ملازمہ بچی پر مبینہ تشدد کی ایف آئی آر میں وحشیانہ تشدد کرکے اعضا توڑنے کی دفعہ 328 اے شامل کر لی گئی ہے. اس سے پہلے ایف ائی آر میں لگائی گئی دفعات قابل ضمانت تھیں، دفعہ 328 اے میڈيکل رپورٹ کی روشنی میں لگائی گئی ہے۔اس سے پہلے اسلام آباد پولیس نے یہ مقدمہ صرف حبس بے جا میں رکھنے اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے کی دفعات کے تحت درج کیا تھا. قانونی طور پر کمزور ایف آئی آر کی وجہ سے اسلام آباد کے سول جج عاصم حفیظ کی اہلیہ نے عدالت سے حفاظتی ضمانت حاصل کر لی تھی.
افسران اور قانونی ماہرین نے کہا کہ مقدمے میں قتل کی کوشش، ہڈی ٹوٹنے، گہرے زخم، دانت ٹوٹنے، کم عمر کو ملازمہ رکھنے اور حقائق چھپانے کی دفعات بھی شامل کی جانی چاہئیں۔
میڈیکو لیگل سرٹیفکیٹ (ایم ایل سی) یہ ظاہر کرتا ہے کہ بچی کا گلا گھونٹنے کی کوشش بھی کی گئی تھی، علاوہ ازیں شکایت اور ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ بچی کے گلے پر گلا گھونٹنے کے نشانات پائے گئے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ متاثرہ بچی لاہور کے ایک ہسپتال کے آئی سی یو میں زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے، میڈیکو لیگل سرٹیفکیٹ (ایم ایل سی) کی بنیاد پر ایف آئی آر میں دفعہ 324 بھی شامل کی جانی چاہیے۔
شکایت کے متن اور ایم ایل سی کے مطابق سیکشن 337-اے اور 337-ایف کو بھی ایف آئی آر میں بالترتیب جسم کے اوپری اور نچلے حصوں میں زخموں سے متعلق شامل کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ کیس میں سیکشن 337 (3) (3) یا 337-ای (وی) اور 337-یو کے تحت بھی وارنٹ جاری کیا جاسکتا ہے کیونکہ بچی کے 2 دانت ٹوٹنے سے ہڈیوں میں فریکچر ہوا تھا، مزید برآں جج اور ان کی اہلیہ کو ایک کم عمر بچی کو بطور ملازم رکھنے پر لیبر ایکٹ کے تحت مقدمہ چلنا چاہیے۔
دوسری جانب وزیراعظم کی معاون خصوصی شزہ فاطمہ بھی رضوانہ کی عیادت کیلئے جنرل اسپتال لاہور پہنچ گئی۔شزہ فاطمہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں گھریلو ملازمہ رضوانہ پر تشدد کاواقعہ انتہائی افسوسناک ہےاور ملزمہ کو ضمانت ملنا افسوسناک ہے۔ایف آئی آر میں درج دفعات کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسپتال انتظامیہ رضوانہ کو بہترین علاج فراہم کررہی ہے، بچی کے والدین کو ایف آئی آر پر کچھ تحفظات ہیں، پولیس مقدمے کی دفعات کو مزید بہتر کرے اور 15 سال سے کم عمر بچوں کو ملازم رکھنا غیرقانونی ہے۔
مزید پڑھیں:یوم عاشورہ کے موقع پر ملک بڑی تباہی سے بچ گیا ،3خطرناک دہشتگرد جہنم واصل
پرنسپل پی جی ایم آئی کا کہناتھا کہ بچی کے علاج معالجے کیلئے تشکیل کردہ سپیشل میڈیکل بورڈ میں پلاسٹک سرجری کا ڈاکٹر بھی شامل کر لیا گیا ہے جو بچی کی مستقل بنیادوں پر صحت یابی اور اعضاء و جلد کی بہتری کے لئے طبی مدد فراہم کرے گا۔ پروفیسر جودت سلیم نے 15سالہ رضوانہ کی موجودہ صورتحال اور صحت سے متعلق پرنسپل پروفیسر الفرید ظفر کو تفصیلات سے آگاہ کیا اور یقین دلایا کہ اُن کی ہدایات کی روشنی میں اس حساس معاملے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی۔
پرنسپل پروفیسر الفرید ظفر نے اپنی گفتگو میں ہدایت کی کہ اس بچی کی جلد صحت یابی کے لئے علاج معالجے کی بہترین سہولیا ت جاری رکھی جائیں، اُس کی خصوصی نگہداشت کو یقینی بنایا جائے اور اس ہائی پروفائل کیس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ برتی جائے۔ پروفیسر الفرید ظفر کا کہنا تھا کہ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں اور اس معاملے میں زیادہ شفقت اور محنت کے ساتھ اپنا کام کرنا ہوگا۔انہوں نے روزانہ کی بنیاد پر اس متاثرہ بچی کا طبی معائنہ جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے میڈیکل بورڈ کی اب تک کی کارکردگی کو سراہا اور اس بچی کی دیکھ بھال کرنے والے ہیلتھ پروفیشنلز کی کارکردگی کی تعریف کی۔
سوشل میڈیا پر ملزمہ کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے،دوسرے دن سے مسلسل ٹرینڈنگ میں ہے،لوگ رضوانہ کیلئے انصاف مانگ رہے ہیں ۔اداکارہ نادیہ جمیل نے ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں وہ واقعہ پر غمگین ہیں ،واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے جذبات پر قابو نہ پاسکیں اور روپڑیں ۔وہ کہتی ہیں کہ ایسے بچوں کو سکول میں ہونا چاہئے نہ کہ بڑے لوگوں کے گھروں میں کام کرنا چاہئے۔