چیف جسٹس کیخلاف مہم چلائی جارہی ہے، قتل کے فتوے جاری کئے جارہے ہیں، عطا تارڑ

Jul 29, 2024 | 14:24:PM
چیف جسٹس کیخلاف مہم چلائی جارہی ہے، قتل کے فتوے جاری کئے جارہے ہیں، عطا تارڑ
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: گوگل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24نیوز)وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ کل سے چیف جسٹس کے خلاف ایک مہم چلائی جارہی اور قتل کے فتوے جاری کئے جارہے ہیں۔

راولپنڈی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کے خلاف انعام کے طور پر رقم کا اعلان کیا جارہا ہے کہ اتنی رقم دی جائے گی جو ان کا سر قلم کر کے لائے گا تو کس نے ان کو اختیار دے دیا کہ وہ سر قلم کرنے کے اعلانات کرتے پھریں اور کیا یہ دین اسلام کو سمجھتے بھی ہیں کہ ایسے اعلانات کرنے شروع کردیئے؟ جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ عقیدہ ختم نبوتؐ کے بغیر دین نا مکمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی پریس ریلیز جاری کی گئی جس کے اوپر واضح لکھا ہے کہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آپؐ کے اوپر ایمان کامل کے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہوتا، جب یہ پریس ریلیز جاری کی گئی تو پھر اس بات کی کیا گنجائش ہے کہ قتل کے فتوی جاری کیے جائیں اور عقیدے پر تحفظات کا اظہار کیا جائے؟ یہ بتائیں کہ یہ حق کس نے دیا آپ کو؟ آپ کونسی دینی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں؟ یہ اب مذمت سے آگے کا کام ہے، یہ رواج شروع ہوگیا ہے کہ سر قلم کرو اور پیسے لے لو تو ایسے لوگوں کو روکا جائے گا، ہم ایسے لوگوں کے سامنے دیوار بن کے کھڑے ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے پیچھے سیاسی مقاصد ہیں، کل جو فتوی جاری ہوا یہ سیاسی بنیادوں پر کیا گیا، ان کا اپنا مکتبہ فکر کیا ہے؟ میرے بزرگوں نے جو کردار ادا کیا تاریخ میں اور وہ کاربند رہے اس معاملے پر، جسٹس قاضی فائز عیسی کے والد قائد اعظم کے ساتھی تھے، ان کے دادا نے بھی مسلمانوں کےلیے خدمات فراہم کیں، بغیر تحقیق کے، بغیر پریس ریلیز کو دیکھے قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی، قانون کو نافذ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، جو کیا گیا ہے اس پر ایف آئی آر بھی درج ہوئی ہے، اس کی کوئی گنجائش نہیں ہمارے معاشرے میں کہ سیاسی مقاصد کے لیے ایسے اعلان کئے جائیں۔

عطا تارڑ نے سوال کیا کہ کیا خالی آپ ہی دین اسلام کے علمبردار ہیں؟ کیا باقی سب کو آپ نے دین اسلام سے خارج کردیا؟ کیا ہمارا حق نہیں اسلام پر بات کرنے کا؟ کیا یہ صرف آپ کا حق ہے؟ ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں اور کسی کو قانون کو ہاتھ میں نہیں لینے دیا جائے گا، منصف اعلی' کے بارے میں ایسے الفاظ بولنا قانونی اور اخلاقا" جرم ہے۔

بعد ازاں حنیف عباسی نے کہا کہ بچہ بچہ آپ ﷺ کے نام پر کٹ مرنے کو تیار ہوجاتا ہے، یہاں تو تاریخ بھری پڑی ہے کہ کیسے نوجوانوں نے آپﷺ کے ناموس پر جانیں قربان کی ہیں، پاکستان میں انارکی پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، پہلے بھی ہم سب یہ کوشش کرتے رہے کہ حکومت کو گرائیں اور اس کے لیےو جو آلہ کار وہ استعمال کریں اور وہی ہمارے گلے میں پڑ گیا، یہ تاریخ ہے ہماری، جن جن کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی وہ پھر غلط ہی ثابت ہوئے۔

حنیف عباسی کا کہنا تھا کہ جس نے یہ فتوی دیا اس کو یہ حق حاصل نہیں، یہ کون ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کے اوپر یہ فتوے لگائے؟ اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی، جتنے بھی رٹ نافذ کرنے والے ادارے ہیں وہ ایسے لوگوں کو گرفتار کریں اور کیفر کردار تک پہنچائیں، ہم چیف جسٹس کے ساتھ اس لیے نہیں کھڑے کہ وہ ہمارے لیے فیصلے دیں گے بلکہ ہم ہر اس شخص کے ساتھ کھڑے ہوں گے جس پر ظلم ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اگر چیف جسٹس پر الزام لگ سکتا ہے جس کی پوری تاریخ ہے تو پھر ہم پر بھی یہ الزام لگ سکتا ہے، ہمارے علمائے کرام سے ہم ملاقاتیں کریں گے اور اس سلسلے میں ہم پارلیمان میں وضاحتی بیان شاید وزیر اعظم خود دیں۔

ان کا کہنا تھا اسرائیل کب سے ہمارا دشمن ہے آج دیکھیں کہ ایک ملک میں قرارداد پاس ہوتی ہے جس کے حق میں نیتن یاہو کو بلا کر سراہا جاتا ہے اور پھر اسی میں ا یک پاکستانی سیاسی جماعت کے لیے قرارداد پاس ہوتی ہے، آج سوشل میڈیا کو استعمال کر کے چیف جسٹس کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور اس میں سب ذاتی مقاصد کے لیے شامل ہورہے ہیں، علمائے کرام ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے اور ہمارے مؤقف کی تائید کی گئی۔

عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ جب وزیر اعظم نے کہا کہ اسرائیل نے نسل کشی کی اور پاکستان نے ہزاروں ٹن امداد بھی بھجوائی تو ان کو غزہ کا درد محسوس نہیں ہوتا پر چیف جسٹس پر فتوے کرنا یاد رہتا ہے، ہم نے غزہ کا مؤقف اٹھایا ہے۔

عطا تاڑ نے کہا کہ یہ ٹیسٹ کیس ہے، اس کے خلاف قانون حرکت میں آئے گا اور کارروائی ہوگی، جو دینی جماعتیں سیاست کیلئے دین کو استعمال کرتی ہیں اگر وہ ملک کیلئے کام کرتیں تو احسن اقبال کے اوپر کبھی بھی گولی نہیں چلتی۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی کے پیچھے کوئی نہیں، یہ بیان مذمت سے آگے کا معاملہ ہے، جنہوں نے بیان دیا ہے ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔