(24نیوز)قومی اسمبلی نے مالی 2021-22 کا بجٹ کثرت رائے سے منظور کرلیا ۔منگل کو قومی اسمبلی کا اجلا س ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت ہوا بعد میں اسپیکر اسد قیصر نے صدارت کی جس میں وزیراعظم عمران خان، شریک چیئرمین پی پی آصف علی زرداری، چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زر داری ، پروڈیکشن آرڈر پر سید خورشید شاہ اور علی وزیر نے خصوصی طورپر شرکت کی تاہم قائد حزب اختلاف شہباز شریف اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔
اجلاس کے دور ان وزیر خزانہ شوکت ترین نے فنانس ترمیمی بل 2021-22پیش کیا تو اپوزیشن کی جانب سے سخت مخالفت کی۔ایوان نے فنانس بل پیش کرنے کی تحریک کی زبانی منظوری لی جسے نواب تالپور نے چیلنج کردیا جس کے بعد اسپیکر نے گنتی کرنے کی ہدایت کی ۔ایوان میں گنتی کا عمل مکمل ہونے کے بعد قومی اسمبلی نے فنانس بل پیش کرنے کی تحریک کو شق وار کثرت رائے سے منظور کرلیا۔
فنانس بل پیش کرنے کی تحریک کے حق میں 172 ووٹ آئے اور 138 ووٹ تحریک کے خلاف آئے جس کے بعد قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ نے بل کی شق وار منظوری کےلئے مسودہ پڑھ کر سنایا جس کے بعد قومی اسمبلی میں فنانس بل کی شق وار منظوری کا عمل مکمل ہوا اور اسپیکر نے بجٹ کی منظوری کےلئے وائس ووٹ کیا اور بجٹ کو منظور کر لیا گیا۔۔اجلاس کے دور ان اپوزیشن کی جانب سے ترمیم پیش کی جس پر ووٹنگ کے بعد انہیں مسترد اورحکومتی ترامیم کا منظور کرلیا گیا۔ اجلاس کے در ان فنانس بل میں ترمیم کے ذریعے نئی شق کا بھی اضافہ کیا گیا اور حکومتی ترمیم کی اپوزیشن نے بھی مخالفت نہیں کی ،ترمیم کے تحت ارکان اسمبلی کو اب ائیر ٹکٹس کے بجائے واو¿چر دئیے جائیں گے۔نئی شق کے اضافے کی ترمیم رانا قاسم نون نے پیش کی ۔اجلاس کے دوران وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے مسلم لیگ (ق) کے رہنما طارق بشیر چیمہ سے سوال کیا کہ آپ کے ارکان کہاں ہیں۔جس پر طارق بشیر چیمہ نے جواب دیا کہ ہمارے تمام کے تمام ارکان اسمبلی ہال میں موجود ہیں اور انہوں نے تمام (ق) لیگ کے ارکان کوپرویز خٹک کو گن کر تسلی کرائی۔
قبل ازیں اپوزیشن نے حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیر خزانہ کی باتوں ، دعوﺅںاور فنانس بل میںتضاد ہے ، ان ڈائریکٹ کی بجائے ڈائریکٹ ٹیکس ہونے چاہئیں ،احساس ہیلتھ کارڈ کا بہت بڑا سکینڈل ثابت ہوگا،وزیر خزانہ ٹیکس فری بجٹ دیں گے، موجودہ حکومت بھاری ٹیکس لگا کر بجٹ پاس کررہی ہے ، بعد میں پریشان ہوتے پھریں گے، موبائل فون کالز پر ٹیکس لگانے سے عام آدمی متاثر ہو گا،ٹیکس گزاروں کو ہراساں کرنے کے واقعات بڑھ جائیں گے اور انکم ٹیکس سے متعلق ترامیم ٹیکسیشن کے نظام کو مشکل بنا دیں گی۔ڑوڈکشن آرڈر کے بعد قومی اسمبلی میں پہلا خطاب کے دوران خورشید شاہ نے کہا کہ آج غریب کےلئے ادویات خریدنا مشکل ہے اور حکومت کی جانب سے ہیلتھ کارڈ تقسیم کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، اس ایوان میں کہہ رہا ہوں کہ ہیلتھ کارڈ کا بہت بڑا اسکینڈل سامنے آئے گاکیونکہ جو کام ہورہا ہے اور ہسپتال اور بندے کے درمیان ہے، ادویات 500 فیصد مہنگی ہوگئی ہیں، بغیر کسی خوشامد کے کہوں گا کہ طبی سہولیات فراہم کرنے میں سندھ کو لاکھ مرتبہ سلام ہے۔
خورشید شاہ نے کہا کہ سندھ کے ہسپتالوں میں افغانستان سے مریض آتے ہیں، لاکھوں کے آپریشن یہاں مفت ہوتے ہیں اور ان سے ان کا شجرہ نصب نہیں پوچھا جاتا۔ انہوںنے کہاکہ زراعی شعبے میں تحقیق کا فقدان پہلے سے ہے اور اب کھاد کسان کی قوت خرید سے باہر ہے، یہاں فی ایکٹر 30 من گندم کی پیداوار جو کہ ہم زرعی ملک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ امید تھی کہ وزیر خزانہ ٹیکس فری بجٹ دیں گے، موجودہ حکومت بھاری ٹیکس لگا کر بجٹ پاس کررہی ہےاور بعد میں پریشان ہوتے پھریں گے۔سید خورشید شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی کو دیکھ کر شکر ادا کیا کہ میں جیل میں ہوں کیونکہ ہم نے پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کی ہے، آپ نے عوام کو کون سا چہرہ دکھایا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا چہرہ ایسا ہونا چاہے کہ عوام کہیں کہ عوام نمائندے مسائل کے حل کےلئے کوشاں ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جو باتیں کی ہیں اس پر عمل نہیں ہوگا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما سید نوید قمر میں بحث کا حصہ بنتے ہوئے حکومت کے ٹیکسیشن کے عمل کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔انہوں نے کہا کہ ان ڈائریکٹ ٹیکس میں امیر اور غریب کی تفریق کے بغیر سب کو برابر ٹیکس دینا ہوتا ہے۔سید نوید قمر نے کہا کہ زیادہ آمدن والے افراد سے ٹیکس وصولی پر زیادہ توجہ دینی چاہئے تاکہ معاشرے کے نیم متوسط اور متوسط طقبے پر ٹیکس کا زیادہ بوجھ نہ پڑے۔ نوید قمر نے کہا کہ اس وقت ملک کا کاروباری طبقہ پہلے ہی قومی احتساب بیورو (نیب) سے تنگ ہے اور اب ایف بی آر کو گرفتاری کے اختیارات دیئے جا رہے ہیں اور کاروباری طبقہ کہے گا ایف بی آر سے بچاو¿، نیب کے حوالے کر دو۔انہوں نے کہا کہ موبائل فون آج کل کی عام ضرورت ہے ، موبائل فون کالز پر ٹیکس لگانے سے عام آدمی متاثر ہو گا۔۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کو فنانس بل کے ذریعے بہت زیادہ اختیارات دیئے جارہے ہیں اس سے کاروباری طبقہ کے لئے مشکلات بڑھیں گی۔ توانائی کی قیمتوں پر قابو پانے کی بجائے پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس عائد کئے جارہے ہیں۔ چاندی پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی رہنما ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ وزیر خزانہ شوکت ترین کی باتوں، دعوو¿ں اور فنانس بل میں تضاد ہے۔انہوں نے کہا کہ آئل ریفائنریوں کو جو مراعات دی گئی تھی وہ واپس لے لی گئی ہیں جبکہ ٹیکسیشن کے نظام کو سہل بنانا پڑے گا کیونکہ ملک میں کاروبار کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ اس ایشو پر توجہ دیں۔۔ رکن اسمبلی شاہدہ اختر علی نے کہا کہ 57 فیصد ٹیکس کا بوجھ تنخواہ دار طبقہ پر ڈالا جارہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ سرکاری ملازمین کے الاﺅنسز پر ٹیکس عائد کرنا ظلم ہوگا۔ نواب یوسف تالپور نے کہا کہ زراعت کے شعبے کو ریلیف نہ دیا گیا تو معیشت ٹھیک نہیں ہوگی۔ مسلم لیگ (ن)کے رکن علی پرویز ملک نے کہا کہ کپاس اور بنولہ پر 17 فیصد سیلز ٹیکس سے کاشتکاروں کا نقصان ہوگا اور کپاس کی پیداوار بھی متاثر ہوگی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ڈائریکٹ ٹیکسوں کے ذریعے ہم افراط زر پر قابو پانے سمیت عوام کو ریلیف دے سکیں گے۔
مسلم لیگ(ن) کے خرم دستگیر نے کہا کہ رواں سال بجٹ خسارہ 3860 ارب روپے کا ہے، سیلز ٹیکس کی شرح 20 فیصد تک بڑھے گی۔ انہوں نے کہا کہ تمام ٹیکسوں میں ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کا حصہ 70 فیصد ہے۔ متوسط طبقہ پریشان حال ہے۔
مالی بل 22۔ 2021پر پہلی خواندگی کے موقع پر بحث کو سمیٹتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ انہیں توقع تھی کہ مالیاتی بل میں ترامیم پربحث ہوگی تاہم اس کی بجائے ہمیں تقریریں دیکھنے کو ملیں۔ انہوںنے کہاکہ74سالہ تاریخ میں پہلی بار پاکستان میں غریب عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی و خوشحالی کے لئے روڈ میپ دیا گیا ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔انہوںنے کہاکہ جب 40 لاکھ لوگوں کو گھر ملیں گے، زراعت اور کاروبار کے لئے سود سے پاک قرضے فراہم ہوں گے تو اس سے ملک میں خوشحالی آئےگی اور اپوزیشن فارغ ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے ماضی میں بھی لگائے گئے تھے، موجودہ حکومت نے اس پر عملدرآمد کیا،بجٹ میں جو اہداف دیئے گئے ہیں ہم انہیں پورا کرکے دکھائیں گے۔
مہنگائی کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ اس وقت بنیادی افراط زر 7 فیصد کی سطح پر ہے جو ان کے دور حکومت میں بھی تھا۔ غذائی افراط زر میں اضافہ ہوا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں زراعت پر پیسے خرچ نہیں کئے گئے،زراعت میں سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے ہم چینی، گندم، دالوں اور دیگر غذائی اشیا کی درآمد پر زرمبادلہ صرف کر رہے ہیں،اس وقت بین الاقوامی مارکیٹ میں غذائی اشیا کی قیمتیں دس سال کی بلند ترین سطح پر ہیں، اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہم نے اپنی زراعت اور زرعی پیداوار کو ترقی دینا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ عام آدمی کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لئے ہم ٹرکل ڈاﺅن پر انحصار نہیں کریں گے،چالیس لاکھ گھرانوں کی آمدنی میں اضافہ کیا جائے گا جس کے نتیجے میں غربت کم ہوگی اور چار سے پانچ برسوں میں خوشحالی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اراکین کی جانب سے آئی ایم ایف کا ذکر کیا گیا ہے، جب 20 ارب ڈالر کا خسارہ ورثے میں ملے تو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے،آئی ایم ایف نے سخت شرائط پر معاہدہ کیا۔ اس کے بعد کورونا وائرس کی عالمگیر وبا آئی جس میں دنیا بھر کی معیشتوں میں منفی گروتھ ہوئی۔ تنقید میرٹ پر ہونی چاہئے، تنقید میں آنے والی تجاویز کو ہم میرٹ پر چیک کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کو گرفتاری کا اختیار دینے کا تاثر درست نہیں ہے صرف سیکشن 203 میں اصلاحات کی گئی ہیں۔ گرفتاری کا اختیار ایف بی آر کے پاس نہیں بلکہ تھرڈ پارٹی سسٹم کی بنیاد پر ہوگا جس کی ایک کمیٹی ہوگی جس کی سربراہی میں خود کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ زراعت ترجیحی شعبہ ہے، بجٹ میں اس مقصد کے لئے 62، 63 ارب روپے رکھے گئے ہیں، صوبے اس سے زیادہ رقوم خرچ کر رہے ہیں۔ کھادوں کےلئے 70ارب روپے اور کیڑے مار ادویات کے لئے 30 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ کاٹن پر کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ سپنرز جب مصنوعات ٹیکسٹائل سیکٹر کو بیچتے ہیں تو یہ پہلا مرحلہ ہوتا ہے، صرف اسے ٹیکس میں شامل کیا گیا ہے،اسی طرح بنولا کے بیج کسان آئل کمپنی کو بیچتے ہیں اور آئل کمپنیاں ان کو ادائیگی کرتی ہیں، یہ ٹیکس صرف ان پر ہے اس کو معقول بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت 18 ٹریلین روپے کی تجارت ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں ، صرف ساڑھے تین ٹریلین ٹیکس نیٹ میں ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے اسے چار سے پانچ ٹریلین تک بڑھانا ہے اس سے ریونیو میں اضافہ ہوگا، ان ڈائریکٹ ٹیکسوں میں اضافے کا تاثر درست نہیں ہے، ٹیکس نیٹ میں شامل نہ ہونے والی تجارت پر ٹیکس صارفین سے سیلز ٹیکس کی صورت میں وصول کیا جارہا ہے تاہم یہ حکومتی خزانے میں نہیں آرہا،ان اقدامات سے عام آدمی پر کوئی اضافی بوجھ نہیں پڑےگا۔بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس بدھ تک ملتوی کردیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: بلاول بھٹو کی جانب سےناشتے کی اندرونی کہانی سامنے آگئی