منحرف ارکان پر تاحیات نااہلی کا اطلاق کیسے کردیں۔۔؟سپریم کورٹ
Stay tuned with 24 News HD Android App
(مانیٹرنگ ڈیسک)آرٹیکل 63 اے سے متعلق ریفرنس کی سماعت میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ منحرف ارکان پر سنگین سزا کا تقاضا کر رہے ہیں، تاحیات نا اہلی کے تقاضے الگ ہیں منحرف رکن پر تاحیات نا اہلی جیسی سنگین اور سخت اصول کا اطلاق کیسے کرتے ہیں، 5سال تک نااہل قرار دینے والے پر تاحیات نا اہلی کا اطلاق کیسے کر دیں؟۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی۔اٹارنی جنرل نے اس موقع پر کہا کہ کمالیہ میں وزیر اعظم کی تقریر کا حوالا دیا گیا تو میں نے وزیراعظم سے اس تقریر کے بارے میں بات کی، میں وزیراعظم کا بیان عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ کمالیہ تقریر میں 1997 سپریم کورٹ حملے کے تناظر میں بات کی گئی تھی، عدلیہ پر بھرپور اعتماد ہے اور یقین ہے۔
چیف جسٹس کے استفسار پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ سندھ ہاو¿س حملے میں ملوث ملزمان کے وارنٹ گرفتاری حاصل کر لیے ہیں، متعلقہ مجسٹریٹ سے وارنٹ گرفتاری حاصل کر لیے ہیں، پی ٹی آئی کے دونوں اراکین اسمبلی سمیت تمام ملزمان گرفتار کیے جائیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ منحرف رکن کی ناہلی پانچ سال یا تاحیات ہوسکتی ہے، منحرف رکن کی نااہلی باقی رہ جانے والے اسمبلی مدت تک بھی ہو سکتی ہے، منحرف رکن نیوٹرل ہو کر پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دے تو اس کی نااہلی کی مدت کا تعین نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر نااہلی تاحیات ہے، مس کنڈکٹ پر 5 سال کی نااہلی ہے، سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کر کے نااہلی کے مدعت کے تعین کی وجوہات بتائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسمبلی کی مدت پوری ہونے تک کی نااہلی سے آرٹیکل 63 اے کا مقصد پورا نہیں ہوگا بلکہ اس کا مقصد تاحیات نااہلی پر ہی پورا ہو گا، سوال صرف یہ ہے کہ منحرف رکن ڈیکلریشن کے بعد الیکشن لڑنے کا اہل ہے یا نہیں، چور چور ہوتا ہے کسی کو اچھا چور نہیں کہا جاسکتا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا اختلاف کرنے کا مطلب انحراف ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہاکہ اختلاف تو ججز فیصلوں میں بھی کرتے ہیں، اختلاف رائے کا مطلب انحراف کرنا نہیں ہوتا
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں رکنیت ختم ہونے کا لفظ ہے، نااہلی کا نہیں، جب نااہلی ہے ہی نہیں تو بات ہی ختم ہو گئی، کیا الیکشن کمیشن انکوائری کرے گا کہ انحراف ہوا ہے یا نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی، پارٹی سربراہ نااہلی کا ڈیکلریشن دے گا۔جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ اختلاف کرنے اور منحرف ہونے میں کیا فرق ہے جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اختلاف تو بہت خوبصورت چیز ہے، منی بل میں رکن اختلاف کر سکتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے مزید کہا کہ منحرف رکن کےخلاف کارروائی کے لیے ڈیکلریشن ضروری ہے، کیا یہ جانچہ نہیں جائے گا کہ رکن کے خلاف ڈکلئیریشن کیا ہے؟جسٹس منیب اختر نے کہا کہ منحرف رکن کی نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمنٹ کرسکتا ہے، پارلیمنٹ کے قانون بنانے تک منحرف رکن کے خلاف کیا کارروائی ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپانے پر تاحیات نا اہلی کا اصول سپریم کورٹ نے طے کیا ہے، منحرف رکن پر تاحیات نااہلی کا فیصلہ دکھا دیں، آپ منحرف رکن پر بہت سنگین سزا کا تقاضا کر رہے ہیں، تاحیات نا اہلی کے تقاضے الگ ہیں منحرف رکن پر تاحیات نا اہلی جیسی سنگین اور سخت اصول کا اطلاق کیسے کرتے ہیں، 5سال تک نااہل قرار پانے والے پر تاحیات نا اہلی کا اطلاق کیسے کر دیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ وہ کونسی قوتیں ہیں جن کی وجہ سے اراکین منحرف ہو جاتے ہیں، اراکین منحرف کیوں ہوتے ہیں اس کی وجوہات کیا ہیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ فورم اس سوال کے جواب کے لیے نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو بولنے سے روکتے ہوئے کہا کہ جج صاحب کو پہلے بات مکمل کرنے دیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تاحیات نااہلی کے تعین کے لیے ہمیں کافی قلابازیاں لگانی پڑیں گی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارٹی سربراہ شوکاز نوٹس دے کر رکن اسمبلی کا موقف لینے کا پابند ہے، 100 گنہگار چھوڑنا برا نہیں، ایک بے گناہ کو سزا دینا برا ہے، پارٹی سے انحراف کرنے والے 100 چور ہوں گیے لیکن ایک تو ایماندار ہو گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ووٹ پارٹی کی امانت ہوتا ہے، 15 سے 20 اراکین ہیں جو کبھی قوانین نہیں بننے دیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ مقننہ نہیں ہے، سپریم کورٹ تشریح کرتی ہے، آپ نہیں سمجھتے کہ ہم آئین بنانے والوں کی نیت کو جانچ رہے ہیں؟ کیا ہم آئین بنانے والوں کی نیت کو جانچ سکتے۔
یہ بھی پڑھیں:استعفیٰ دینے کے بعد عثمان بزدار کا پہلا بیان سامنے آگیا