(24 نیوز)جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے ایک کے مقابلے میں دو کی اکثریت سے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو سپریم کورٹ رولز 1980 میں ترامیم تک 184/3 کے مقدمات کی سماعت اور بنچ تشکیل دینے سے روکنے کا حکم نامہ جاری کر دیا.
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ججز دوسرے لوگوں کی سزا یا جزا کا فیصلہ کرتے ہیں،ججز کو احتساب سے دور رکھنا اخلاقی،قانونی اور مذہبی لحاظ سے غلط ہے،اپنے اور دوسرے کیلئے الگ الگ معیار بنانے والے کو منافق کہتے ہیں جس پر اللہ لعنت بھیجتا ہے،آئین چیف جسٹس کو اپنی مرضی کے خصوصی بنچ بنا کر اپنی مرضی کے ججز شامل کرنے کا اختیار نہیں دیتا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں حافظ قرآن کو میڈیکل ڈگری میں 20 اضافی نمبر دینے سے متعلق از خود نوٹس کیس کا جسٹس قاضی فائز عیسی نے کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ۔تحریری فیصلے میں کہاگیا ہے کہ بنچ کی تشکیل کے رولز کے مطابق خصوصی بنچز کا تصور نہیں ہے،چیف جسٹس کے پاس اختیار نہیں کہ بنچ کی تشکیل کے بعد کسی جج کو بنچ سے الگ کرے،سپریم کورٹ رولز میں ترمیم تک از خود نوٹس کا اختیار استعمال نہیں ہونا چاہئے۔
سپریم کورٹ نے کہاہے کہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال کرنے کیلئے ججز کا احتساب ہونا چاہئے،بنچ کی تشکیل اور مقدمات مقرر کرنا کا طریقہ کار صاف شفاف ہونا چاہئے،عدلیہ پر تنقید کو روکا گیا تو عدلیہ کا وجود برقرار نہیں رہے گا۔
سپریم کورٹ نے کہاہے کہ قرآن پاک حفظ کرنے سے کیا کوئی اچھا ڈاکٹر یا دندان ساز بن جاتا ہے،حافظ قرآن کو میڈیکل ڈگری میں اضافی نمبر دینا مساوی حقوق کی خلاف ورزی ہوگا،قرآن پاک اللہ پاک کی خوشنودی کیلئے حفظ کیا جاتا ہے نہ کہ دنیاوی فائدے کیلئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس امین الدین نے از خود نوٹس کے زیر سماعت مقدمات کو موخر کرنے کا فیصلہ دیا، فیصلے میں کہاگیاہے کہ جب تک بینچز کی تشکیل سے متعلق چیف جسٹس کے اختیارات میں ترمیم نہیں ہوتی تمام مقدمات کو موخر کیا جائے،جسٹس شاہد وحید نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا،فیصلہ دو ایک کے تناسب سے جاری کیا گیا۔
فیصلے میں کہا گیاہے کہ سپریم کورٹ چیف جسٹس اور تمام ججز پر مشتمل ہوتی ہے،چیف جسٹس کو خصوصی بنچ بنانے کا اختیار نہیں،آرٹیکل 184 تین کے تحت دائر درخواستوں کے حوالے سے رولز موجود ہیں، از خود نوٹس کے مقدمات مقرر کرنے اور بنچز کی تشکیل کیلئے رولز موجود نہیں،رولز کی تشکیل تک اہم آئینی اور ازخود نوٹس کے مقدمات پر سماعت موخر کی جائے،
فیصلے میں مزید کہاگیاہے کہ پیمرا کی جانب سے ججز پر تنقید پر پابندی آئین اور اسلام کیخلاف ہے، آرٹیکل 184/3 کے تحت فیصلوں کیخلاف اپیل کا حق بھی موجود نہیں،جب مخصوص وابستگی رکھنے والے ججز کے سامنے مخصوص مقدمات لگائے جائیں تو شکوک وشبہات جنم لیتے ہیں،نا آئین نا رولز چیف جسٹس کو خصوصی بنچز کی تشکیل اور ججز کے چناﺅ کا اختیار دیتے ہیں ،از خود نوٹس کے مقدمات میں فیصلوں کے سیاست اور معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔
فیصلے میں مزید کہاگیاہے کہ آئین میں سوموٹو نامی لفظ کہیں موجود ہی نہیں ہے، ججز نے آئین اور قانون کے مطابق کام کرنے کا حلف لے رکھا ہے، ججز دوسرے لوگوں کی سزا یا جزا کا فیصلہ کرتے ہیں،ججز کو احتساب سے دور رکھنا اخلاقی،قانونی اور مذہبی لحاظ سے غلط ہے،اپنے اور دوسرے کیلئے الگ الگ معیار بنانے والے کو منافق کہتے ہیں جس پر اللہ لعنت بھیجتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیاہے کہ آئین چیف جسٹس کو اپنی مرضی کے خصوصی بنچ بنا کر اپنی مرضی کے ججز شامل کرنے کا اختیار نہیں دیتا۔
یہ بھی پڑھیں: ”روزہ“کس طرح کینسر سے بچاﺅ میں مددگار؟ حیران کن حقائق سامنے آگئے