(24 نیوز)پاکستان میں تمباکو مافیا بہت زیادہ پاور فل ہے۔ ملک میں سالانہ اربوں روپوں صرف ٹوبیکو کی اسمگلنگ کی نظر ہو جاتے ہیں ۔اور اسی وجہ سے وہ انڈسٹریز جو قانونی طور پر تمباکو کی صنعت سے وابسطہ ہیں وہ بند ہونے کے قریب ہیں ۔ رواں مالی سال میں ابتک سگریٹس کی سمگلنگ میں کمی نہیں آسکی ہے۔ کسٹمز انٹیلیجنس نے رواں مالی سال میں ابتک تقریبا 340 ملین روپے مالیت کے سگریٹس پکڑی ہیں جو غیر قانونی طور پر ملک میں آئی ۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں کس پیمانے پر یہ کام ہو رہا ہے۔
پروگرام ’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ سگریٹ پر ایف ای ڈی میں 200 فیصد اضافہ اور ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم مکمل طور پر نافذ نہ ہونے سے خدشہ ہے کہ سگریٹ کی صنعت کی پیداوار میں 44 فیصد کمی اور مجموعی طور پر مجموعی طور پر فروخت میں 28.4 فیصد کمی کی توقع ہے۔ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کی بات کریں تو صرف دو بین الاقوامی مینوفیکچررز پر ٹریک اینڈ ٹریس کا نفاز ہے باقی ماندہ غیر دستاویزی تمباکو کے شعبے پر عمل درآمد کا فقدان ہے۔ ٹیکس اسٹیمپ کا نفاذ اب بھی ایک خواب ہے۔ آزاد جموں و کشمیر میں مینوفیکچررز نے ٹریک اینڈ ٹریس کو عدالتوں میں چیلنج کیا ہے اور حکم امتناع حاصل کیا ہے۔
2022 کے بعد سے اصل نفاذ کی تاریخ کے بعد سے عمل درآمد کی ڈیڈ لائن کو متعدد تاخیر کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاکستان میں چھ مینوفیکچررز اب بھی عدالتوں میں ہیں۔ حکومت صحت سے متعلق انتباہ کے بغیر بھی سستے اسمگل شدہ سگریٹوں کی فروخت روکنے میں ناکام رہی ہے لیکن مانیٹرنگ صرف ان ملٹی نیشنل کمپنیوں تک محدود ہے جہاں ٹریک اینڈ ٹریس پہلے ہی مکمل طور پر نافذ کیا جا چکا ہے۔ حکومت نے 200فیصد تک ایف ای ڈی کی بلند شرح عائد کی تھی جس سے پیداوار بہت مہنگی ہو گئی تھی، لیکن مارکیٹ پر اسمگل شدہ سگریٹس نے قبضہ کر لیا ہے جو سستے ہیں کیونکہ ان پر کوئی ٹیکس اور ڈیوٹی نہیں ہے۔مزید دیکھیے اس ویڈیو میں