پاکستان کے نئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے اپنے عہدے کا خلف اٹھا لیا اور چینج آف کمانڈ کی پر وقار تقریب میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے علامتی چھڑی (کمانڈنگ سٹک ) نئے آرمی چیف کے حوالے کی، پاکستان میں تاریخی طور پر ہی سہی چیف آف آرمی سٹاف کی تعیناتی ہمیشہ ہی موضوع بحث بن جاتی ہے بہت سے دوست یہ نقطہ اٹھاتے ہیں کہ صرف پاکستان میں ہی یہ پوسٹ اتنی اہم کیوں ہے ؟ دنیا بھر میں تو اس عہدے پر تعیناتی کو نہ تو متنازعہ بنایا جاتا ہے اور نہ وہاں ٹاک شوز اور اخبارت میں اس کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
تو دوستو ! پاکستان کے جغرافیائی حالات کچھ ایسے ہیں کہ ہم ایک مضبوط آرمی کے بغیر ملکی سالمیت کا تصور نہیں کر سکتے اس لیے یہاں آرمی جنرل اہم سٹرٹیجی ایسٹ کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ پاکستان آرمی کے چیف آف آرمی سٹاف تعینات ہونے والے افراد نے ملک میں مارشل لاء کا بھی نفاذ کیا اور اس طرح پاکستان میں تیس سال کے لگ بھگ لگنے والے مارشل لاء میں سیاستدانوں کی ایک ایسی نسل تیار کردی جنہوں نے آنکھ ہی ایسے ادوار میں کھولی جب ملک پر فوجی راج تھا یہی وجہ ہے کہ یہ سیاستدان بشمول چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اپنےسیاسی مقاصد کے لیے فوجی سربراہان کی جانب دیکھتے ہیں اور اقتدار کے لیے چور دروازے کا انتخاب کرتے ہیں جو آسان بھی ہے اور محفوظ بھی ۔
ضرور پڑھیں :جنرل عاصم منیر نے پاک فوج کی کمان سنبھال لی
موضوع کی جانب آگے بڑھتے ہیں اس بار بھی آرمی چیف کی تعیناتی پر اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اس عہدے پر تعیناتی کو ملکی اور بیرون ملک اتنا متنازعہ بنانے کی کوشش کی کہ نا چاہتے ہوئے بھی پاکستان کا ہر شہری ایک ہیجان کی کیفیت میں تھا ، اپوزیشن نے لانگ مارچ کو حقیقی آزادی کا نام دیکر کنٹینرز پر سے وہ وہ الزامات لگائے اور دہرائے کہ جن کا تصور بھی ماضی میں نہیں کیا جاسکتا تھا ،ان تمام الزامات کامقصد صرف اور صرف ایک تھا کہ کسی طرح میرٹ پر یہ تعیناتی نہ ہوجائے ۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ عمران خان اور اُن کی جماعت نے خود ساختہ طور پر آرمی میں بڑے رینکس پر اپنی میرٹ لسٹ بنا رکھی ہے اسی لیے وہ اسی لسٹ کو ہی میرٹ مانتے ہوئے اس پر عملدرآمد کرانا چاہتے ہیں، اُن کے ذاتی خیال میں اگر انہیں عسکری اداروں سے "فیض" ملنا بند ہوا تو اُن کی سیاست کا وہ بت جسے اس ادارے نے ہی پتھر سے بھگوان بنایا ہے پاش پاش ہوجائے گا اس لیے اس تعیناتی میں رخنہ ڈالنے کے لیے کیا کیا حیلے بہانے نہیں کیے کبھی کہا کہ نواز شریف کو یہ تعیناتی کرنے نہیں دیں گے پھر کہتے کہ زرداری اور شہباز شریف ایسا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں جو ان کو این آر او دے اور ان کی کرپشن کی حفاظت کرئے اور کبھی فوج کے اعلیٰ رینک افسران پر لغو اور بیہودہ الزامات عائد کرتے اس سارے ڈرٹی کھیل میں جس طرح پاکستان کے جمہوری نظام اور پاک فوج کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو متنازعہ بنایا گیا اس کا خوب خوب فائدہ ہمارے ازلی دشمن بھارت میں موجود فاشسٹ عناصر نے اٹھایا ، اوروہ کیوں نہ اٹھاتے اُن کے خیال میں تو اس گھر کو آگ لگ رہی تھی گھر کے چراغ سے انہیں تو صرف پھونک مار کر اس آگ کو مزید ہوا دینا تھی سو انہوں نے اس مقصد میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔
یہ بھی پڑھیں :عمران خان تیرے چاہنے والے کدھر جائیں ؟
حکومت پاکستان جس کی سربراہی میاں شہباز شریف کر رہے ہیں اس تعیناتی کو مزید متنازعہ بنانے سے بچانے کے لیے وہ تاریخی فیصلہ کیا جس پر ہر آنے والی حکومت کو عمل کرنا چاہیے اور اگر ممکن ہو تو آئین میں تبدیلی کرکے جہاں آرمی چیف کے لیے دیگر معیارات مقرر کرکھے ہیں وہیں یہ معیار بنا دیا جائے کہ جو سنیارٹی لسٹ میں نمبر ون ہو اسے چیف آف آرمی سٹاف اور جو نمبر ٹو پر ہو اسے جوائینٹ چیف آف آرمی سٹاف مقرر کردیا جائے اس ایک کام سے یہ تنازعہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کیا جاسکتا ہے ،
اب آئیں جنرل حافظ سید عاصم منیر کی تعیناتی کے بعد کی صورتحال پر بات کر لیتے ہیں ۔ نئے آرمی چیف کئی ایک حوالوں سے منفرد حثیت رکھتے ہیں یہ او ٹی ایس یعنی آفیسر ٹریننگ سکول سے تربیت حاصل کرنے کے بعد اس عہدے پر پہنچنے والے دوسرے فوجی جرنیل ہیں اس سے پہلے اکلوتے آفسیر جنرل ضیاء الحق تھے ، جنرل عاصم منیر پاکستان کے پہلے حافظ قرآن آرمی چیف ہیں پنڈی کے سکول ہیڈ ماسٹر کے گھر پروان چڑھنے والے جنرل عاصم منیر کے تمام بہن بھائی بھی سینوں میں قرآن لیے ہوئے ہیں ، نہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اعزازی شمشیر رکھنے والے پہلے آرمی چیف ہیں ، جنرل سید عاصم منیر کے متعلق عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ "ظالم حکمران" کے سامنے کلمہ حق کہنے کا جگر رکھتے ہیں اور شائد یہی وجہ ہے کہ بقول ذرائع انہوں نے بطور ڈی جی آئی ایس آئی اُس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے سامنے پنجاب میں ہونے والی کرپشن اور بزدار گوگی اور فرح گوگی سے بشریٰ بی بی تک کا نیٹ ورک آشکار کیا اور اپنی پوسٹ سے ہاتھ دھوئے ، اُن کے آنے سے بقول شخصے بنی گالا سے نئی دہلی تک صف ماتم بچھی ہوئی ہے، بھارت تک تو ٹھیک ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف کو اس لیے پریشان نہیں ہونا چاہیے کہ جو فوجی افسر عمران خان جیسے طاقتور حکمران کے سامنے کلمہ حق کہہ سکتا ہے وہ پی ڈی ایم کی کمزور حکومت کے سامنے بھی سچ کہنے سے نہیں ڈرے گا ۔
ہماری نئے آرمی چیف سے یہی درخواست ہے کہ وہ ملک سے کرپشن کے خاتمے کو اپنی اولین اور جمہوری نطام کی مضبوطی کو ترجیع ثانیہ کے طور دیکھیں جمہوری حکومتوں کو اپنی مدت پوری کرنے میں مدد فرمائیں فری اینڈ فیئر انتخابات کی راہ ہموار کریں اور اپنی مدت تعیناتی کو آنے والوں کے لیے مثال بنا جائیں شائد اسی میں پاکستان کی بھلائی ہے