یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی، کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے
Stay tuned with 24 News HD Android App
یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے
بلال پاشا ایک ایسا چمکتا دھمکتا ستارہ جو کروڈوں لوئر مڈل کلاس نوجوانوں کے لیے مشعل راہ تھا۔جس کی زندگی اور جہدو جہد ہمت ہارے ہوئے ان نوجوانوں کے لیے ایک امید کی کرن تھی جو اپنی زندگی میں ایک بلند مقام،ریاست کا کارآمد شہری اور اپنے خاندان کے سینکڑوں لوگوں کی وجہ شہرت بننا چاہتے تھے۔لیکن گزشتہ روز کی شام ان نوجوانوں کے لیے خاصی دل گرفتہ ثابت ہوئی جب انہیں سوشل میڈیا کےذریعے اسی نوجوان افسر’بلال پاشا‘ کی موت کی خبر ملی ۔پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ نوجوان سرکاری افسر کی اچانک موت کی خبر نے ان کے دوستوں، ساتھیوں اور شاگردوں سمیت اُن کی زندگی کی جدوجہد پر مبنی کہانی سے متاثر ہونے والوں کو غمگین کر دیا ۔ خانیوال سے تعلق رکھنے والے بلال پاشا ایک غریب گھر میں پیدا ہوئے لیکن اپنے والدین کا خواب پورا کرنے کے لیے انہوں نے دن رات محنت کی اور پھر 2019 میں سی ایس ایس افسر بن کر وہ کر دکھایا، جس کا لاکھوں کروڑوں نوجوان خواب ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اب یہ نوجوان مایوسی کے عالم میں مشہور آنجہانی ایکٹر عرفان خان کا بولا فقرہ کہنے پر مجبور ہیں کہ جب غریبوں کے دن آتے ہیں تو موت بیچ میں ٓاجاتی ہے‘بلال نے پرائمری تعلیم خانیوال کے ایک مدرسے سے حاصل کی اور اس کے بعد اسی علاقے کے ایک سرکاری سکول سے میٹرک کیا۔ ایم فل کے لیے انہوں نے یونیورسٹی آف ایگریکلچر، فیصل آباد کا انتخاب کیا۔ سنہ 2019 میں سی ایس ایس کے امتحان میں وہ 85ویں پوزیشن پر آئے اور محکمہ ملٹری لینڈز اینڈ کنٹونمنٹ میں تعینات ہوئے۔ بلال پہلی مرتبہ جب مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے بعد منظرِ عام پر آئے تو اس دوران سوشل میڈیا پر سی ایس ایس کرنے والوں کے حوالے سے گرما گرم بحث جاری تھی اور یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ امتحان ایلیٹ کلاس اور اثر و رسوخ رکھنے والے خاندانوں کے بچے ہی پاس کر سکتے ہیں۔مزید جانئے اس ویڈیو میں