ملزمان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے لاہور ہائیکورٹ نے نئے قوانین وضع کر دیئے

Nov 29, 2023 | 14:00:PM

(ملک اشرف )لاہور ہائیکورٹ نے گرفتار ملزمان کے جسمانی ریمانڈ سےمتعلق بڑا فیصلہ کرتے ہوئے ،ملزمان کا جسمانی ریمانڈ دینے کیلئے نئے اصول وضع کر دئیے۔
2رکنی بینچ نے منشاء بم کے جسمانی ریمانڈ کیخلاف درخواست پرتحریری فیصلہ جاری کیا،جسٹس علی ضیاء باجوہ اور جسٹس شہرام سرور پر مشتمل بینچ کا 15 صفحات کا فیصلہ عدالتی نظیرقرار، ملزم منشا بم کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کا فیصلہ کالعدم قرار،جسمانی ریمانڈ کے لئے ملزم کا کمرہ عدالت میں موجود ہونا ضروری قرار،عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملزم کی پیشی کے بغیر جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا ،
پولیس افسر کسی ملزم کو 24 گھنٹے میں عدالت میں پیش کئےبغیر پاس نہیں رکھ سکتا ،صرف تفتیشی افسر کےبیان کو بنیاد بنا کر کسی ملزم کا جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا ،تفتیشی افسر کی ریمانڈ کی درخواست پرمجسٹریٹ حقائق کو مدنظر رکھ کر فیصلے کریں ،مجسٹریٹ تمام حقائق کومدنظر رکھ کہ اپنے جوڈیشل مائنڈ کا استعمال کرینگے۔
عدالت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مجسٹریٹ جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ کرتے وقت آبزرویشن کو عدالتی فیصلے کا حصہ بنائیں ،مجسٹریٹ جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ کرتے وقت کیس ڈائری ،متعلقہ دستاویزات کا مشاہدہ کریں ،مجسٹریٹ یقینی بنائیں کہ ملزم کا جرم سے تعلق بنتا ہے اور مزید تفتیش درکار ہے ،تفتیشی افسر جسمانی ریمانڈ میں توسیع مانگیں تو دیکھا جائے گزشتہ ریمانڈ پر کیا تفتیش ہوئی ،ملزم کو جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کا بھرپور موقع دیا جائے اور بیان ریکارڈ پر لایا جائے ،ملزم کے جسمانی ریمانڈ کے لیے عدالت کا مطمئن ہونا ضروری ہے،مجسٹریٹ کے فیصلے سے ملزم کی آزادی جڑی ہوتی ہے ،شہریوں کے حقوق کا تحفظ عدالتوں کا بنیادی فرض ہے ۔
اعلیٰ عدالتوں نےمجسٹریٹ کیجانب سے بغیرتحقیق ریمانڈ دینےکو نا پسند کیا ،آئین کا آرٹیکل 9 شہریوں کی آزادی زندگی آزادی کی تحفظ کا ضامن ہے ،ڈپٹی پراسکیوٹر کا یہ بیان انتہائی غیر مناسب ہے اور قانون کی غلط تشریح ہے ،جسمانی ریمانڈ دیتے وقت ایڈمنسٹریٹر یو جج مجسٹریٹ کی طرح ایکٹ کریں گے ،ایڈمنسٹریٹریو جج کو ریمانڈ دیتے وقت مناسب وجوہات بتانا ہوں گی ،موجودہ کیس میں ملزم کو 27 سمتبر کو جسمانی ریمانڈ کیلئےعدالت پیش کیا گیا ،پولیس ڈائری میں ملزم کی چار روز حوالگی سے متعلق کچھ درج نہیں ،موجودہ کیس میں ملزم کے خلاف ریکارڈ میں کچھ بھی نہیں ،اے ٹی سی جج نے بغیر حقائق جانے 4مرتبہ جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی ،بظاہر لگتا ہےکہ جج نے بغیر کیس ڈائری دیکھے لاپرواہی میں ریمانڈ میں توسیع کی ،ملزم منشا علی کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کا کالعدم قرار دیا جاتا ہے ۔

یہ بھی پڑھیں:ویرات کوہلی کی ون ڈے کرکٹ سے چھٹی 

مزیدخبریں