(تحریر محمد احمد رضا )چنائی سٹیڈیم میں آئی سی سی ون ورلڈکپ کا چھبیسویں میچ میں پاکستان کو سنسنی خیز شکست ہوئی،،، جنوبی افریقہ نے ایک وکٹ سے ہرا دیا،،، دو سو اکہتر رنز کے پاکستانی ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے پروٹیز سینتالیس اعشاریہ دو اوور میں وِننگ شارٹ کھیل کر اعصاب شکن مقابلہ اپنے نام کر لیا،،،
قومی ٹیم کو سپر میگا ایونٹ میں بھارت، آسٹریلیا، افغانستان اور اب جنوبی افریقہ سے شکست ہوئی یعنی پہلی بار لگاتار چوتھے میچ کی ہار کا ہار گلے پڑا،،، کرکٹ شائقین ہوں یا ماہرین اس ہار کو مختلف پہلووں سے جائزہ لے رہے تھے کہ اس تاریخ پر نظر پڑی تو ایک اور تلخ ہار یاد آ گئی ایک سال پہلے اسی تاریخ کو گرین شرٹس کو زمبابوے سے ایک رن کی شکست ہوئی تھی،،، آئی سی سی ورلڈکپ میں پاکستان کی ناکامیوں کے حوالے سے تاریخ رقم ہو گئی ،،، عجب اتفاق ہے کہ گذشتہ پاکستان کی دونوں ناکامیاں آٗئی سی سی کے میگا ایونٹس میں ہوئیں،،،
فرق صرف فارمیٹ کا، کہ پہلے ٹی 20 ورلڈکپ تھا اور اب ون ڈے کرکٹ کی عالمی جنگ ہے۔ گذشتہ سال آسٹریلیا میں کھیلے گئے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں پرتھ کے میدان پر پاکستان کو زمبابوے سے ایک رن کی شکست ہوئی تھی ،،، دوسری مماثلت یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف دونوں ورلڈکپ میچز میں آل راؤنڈر محمد نواز شکست کی وجہ بنے، کینگروز کے دیس بیس اوور میں ایک سو اکتیس رنز کے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے بائیس رنز پر کھیلتے محمد نواز جیت سے صرف تین رنز کی دوری پر جا کر وکٹ گنوا بیٹھے، شاہین آفریدی آئے اور رن آؤٹ ہو گئے۔ ادھر چنائی میں بھی گیم اور گیند گھوم گھما کر محمد نواز کے ہاتھ آئی،،، ان کے اوور میں چوکا لگنے پر میچ ختم ہوا۔ ایک اور حسن اتفاق یہ تھا کہ سال دوہزار بائیس اور تیئس میں آل راؤنڈ کارکردگی پر حریف کھلاڑی ہی پلیئر آف دی میچ بنے،،، اس سے بھی تعجب کی بات یہ کہ دونوں مسلمان پلیئر یعنی تبریز شمسی اور سکندر رضا نے پاکستان کی شکست میں اہم کردار ادا کیا
27 اکتوبر کو پاکستان کرکٹ کی میگا ایونٹ میں دو شکستیں،،، یہ تاریخ کا حسن اتفاق نہیں بلکہ تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والوں کے لیے سوال ہے