26ویں کے بعد 27 ویں آئینی ترمیم،شہبازحکومت کی گیم الٹ گئی،بڑا اپ سیٹ
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز)ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسے 26 ویں آئینی ترامیم کے بعد بھی حکومت مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے ۔اور یہی وجہ ہے کہ اب 26 ویں ترمیم کے فوری بعد 27 ویں ترمیم کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے ۔حکومت کو یہ توقعات تھیں کہ نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اِس کی اُمیدوں پر پورا اُتریں گے۔لیکن چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ اینڈ پروسیجر کمیٹی میں جسٹس امین الدین کی جگہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو شامل کرلیا ہے۔اور یہ حکومت کیلئے بڑے جٹھکے سے کم نہیں ۔کیونکہ حکومت نے 26 ویں آئینی ترامیم کیلئے جتن بظاہر اِس لئے کئے تھے تاکہ جسٹس منصور علی شاہ کا بطور چیف جسٹس بننے کا راستہ روکا جاسکے ۔اور جب حکومت راستہ روکنے میں کامیاب رہی تو یہ اُمید ظاہر کی جانے لگی کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر سپر سیڈ ہونے کی وجہ سے خود ہی استعفی دےد یں گے ۔لیکن یہاں بھی حکومت کے حصے مایوسی ہی آئی ۔
پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ اب بہرحال چیف جسٹس نے دونوں سینئر ججز کو سپریم کورٹ اینڈ پروسیجر کمیٹی میں شامل کرکے ایک طرح سے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ عدلیہ میں کسی صورت تقسیم نہیں ہونے دیں گے ۔اور دونوں سینئر ججز کو ساتھ لے کر چلیں گے ۔اور یہ حکومت کیلئے قابل قبول نہیں ہوسکتا۔کیونکہ اِن دونوں ججز کا کمیٹی میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اِن کا بینچ کی تشکیل میں عمل دخل شامل ہوگا۔اب یہ حکومت کیلئے الارمنگ صورتحال ہے ۔کیونکہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر میں سے کوئی بھی آئینی بینچ کا سربراہ بھی بن سکتا ہے ۔اور حکومت کو اِس بات کا ادراک ہے۔اور اِس سے بڑھ کر عابد زبیری جنہوں نے 26 ویں آئینی ترامیم کیخلاف پیٹیشن واپس لے لی تھی وہ پیٹیشن پھر سے سرپم کورٹ میں دائر کردی گئی ۔اور اہم بات یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی نے بھی نئے چیف جسٹس پر کسی قسم کا اعتراض نہیں اُٹھایا نہ اُن پر تنقید کی ہے۔ جو نئے چیف جسٹس پر ایک طرح سے اعتماد ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔اِس کے علاوہ پی ٹی آئی نے اپنے گزشتہ روز ہونے والے سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں جوڈیشل کمیشن کا حصہ بننے کی تجویز متفقہ طور پر منظور کرلی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کمیشن کا بائیکاٹ کرکے اب حکومت کیلئے کھلا میدان دینے کو تیار نہیں ۔ اب یہ سب علامتیں حکومت کیلئے خطرناک ہیں اور یہی وجہ ہے کہ رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ تین سینیئر موسٹ ججز آئینی بینچ کا حصہ نہ بنیں ۔ جسٹس منصور علی شاہ متنازع جج ہیں، اس لئے اُنہیں آئینی بینچ کا سربراہ نہیں بننا چاہئے۔
دوسری جانب چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں پہلا فل کورٹ اجلاس ہوا،جو تقریباً دو گھنٹے سے زائد جاری رہا، فل کورٹ اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کا کیس مینجمنٹ سسٹم ایک ماہ تک نافذ کیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق اجلاس میں تمام دستیاب جج شریک ہوئے۔جسٹس منصور علی شاہ عمرے کی ادائیگی کے باعث اجلاس میں شریک نہیں سکے۔ فل کورٹ اجلاس میں ججز کے تحفظات سمیت اہم انتظامی امور زیر غور آئے، اس کے علاوہ اجلاس میں عدالتی اصلاحات پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔اجلاس میں سپریم کورٹ کی کارکردگی کا جائزہ لینے اور کیسز نمٹانے کے بارے میں مختلف تجاویز پر غور کیا گیا، خصوصی بنچز دیوانی اور فوجداری مقدمات کو نمٹائیں گے۔
جن تین سینئر ترین ججز کی بات رانا ثنا اللہ کر رہے ہیں اُن میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی بھی شامل ہیں ۔یعنی یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس منتخب ہوئے ابھی چند روز ہی ہوئے ہیں کہ حکومت ابھی سے اِن پر اعتراضات اُٹھانا شروع ہوگئی ہے ۔ ایسا تاثر اُبھر رہا ہے کہ عدلیہ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اور 27ویں ترمیم کا شور بھی اِسی تناظر میں ڈالا جارہا ہے ۔بہرحال گزشتہ روز 27 ویں ترمیم کے حوالے سے بلاول بھٹو کی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات ہوئی ۔جس میں دونوں رہنماؤں نے 27 ویں آئینی ترمیم لانے پر اتفاق کرلیا ہے۔ذرائع کے مطابق ملاقات میں آئینی بینچ اور پریکٹس اینڈ پروسجر ایکٹ کے معاملات زیر غور آئے۔دونوں رہنماؤں نے 27ویں ترمیم پر مولانا فضل الرحمان اور ایم کیو ایم پاکستان اور دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا۔ جبکہ واقفان حال تو یہاں تک کہتے ہیں کہ دونوں رہنماؤں میں آئینی بینچ کے سربراہ کے حوالےسے بھی بات ہوئی ۔اور یہ بھی کہا گیا کہ آئینی بینچ کا سربراہ مخصوص نشتوں کا فیصلہ دینے والوں میں سے نہیں ہونا چاہئے۔اب سوال یہ ہے کہ اگر 27 ویں ترمیم کے ذریعے مخصوص نشستوں کا فیصلہ دینے والے ججز کو آئینی بینچ کی تشکیل میں نظر انداز کیا جاتا ہے تو کیا اِس سے عدلیہ میں تقسیم بڑھانے کا تاثر نہیں اُبھرے گا؟اگر ایسا ہوتا ہے تو حکومت پر یہ الزام اور بھی گہرا ہوجائے گا کہ وہ کسی خاص جماعت کو دیوار سے لگانے کیلئے ایسی ترامیم کر رہی ہے۔ویسے وزیر اعلی پنجاب مریم نواز نے آج حافظ آباد میں کسان کارڈ کے اجراء سے خطاب میں میں بانی پی ٹی آئی سے متعلق پیشگوئی کی ہے جس میں وہ کہتی ہیں کہ عنقریب یہ فتنہ بھی ختم ہو رہا ہے، اِس فتنے کی فتنہ بازی بھی ختم ہو رہی ہے۔
اب مریم نواز کا بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب 27 ویں ترمیم کی بات کی جارہی ہے ۔ ۔بہرحال اب سوال یہ بھی اُٹھ رہا ہے کہ 27 ویں ترمیم میں حکومت کو پھر سے دو تہائی اکثریت ملے سکے گی؟ کیونکہ 26 ویں آئینی ترامیم میں حکومت اور اِس کے اتحادیوں کو مولانا فضل الرحمان کو منانے میں پورا زور لگانا پڑا ۔لیکن اب کی بار تو مولانا فضل الرحمان نے صاف صاف انداز میں یہ بتا دیا ہے کہ وہ 27 ویں ترمیم میں کسی صورت حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے ۔
اب سوال یہ ہے کہ اِس بار بھی حکومت اور اِس کی اتحادی جماعتیں 27 ویں آئینی ترامیم پر مولانا فضل الرحمان کے گھر اُن کو راضی کرنے آئیں گی ۔جبکہ بلاول بھٹو نے تو 26 ویں آئینی ترامیم کے بعد یہ دعوی کیا تھا کہ اگر مولانا نہ بھی ہوتے تب بھی ہمارے نمبر پورے تھے ۔بلاول بھٹو نے ایک غیرملکی نشریاتی ادارے کو اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے ہمارے پاس مطلوبہ نمبر پورے تھے اور 26 ویں ترمیم مولانا کی حمایت کے بغیر بھی منظور ہوسکتی تھی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت 27 ویں ترمیم میں مولانا کو ساتھ لے کر چلتی ہے اور کیا مولانا حکومت کا ساتھ دیتے ہیں یا پھر اُن کی 27 ویں ترمیم پر مخالفت برقرار رہتی ہے ۔دوسری جانب تحریک انصاف 27 ویں ترمیم آنے کی صورت میں بھرپور مخالفت کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔
اب تحریک انصاف کا یہ کہنا ہے کہ حکومت عدلیہ کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے اور سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی بھی کچھ ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کی عدلیہ کو کنٹرول کرنے کی خواہش پرانی ہے 13 ویں ترمیم کے ذریعے بھی میاں صاحب عدلیہ کو ماتحت کرنا اور خود امیر المومنین بننا چاہتے تھے۔