پولیو کا گہرا سایہ ہمارے بچوں کی زندگیوں کو نگلتا جا رہا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل یوں محسوس ہو تا تھا کہ جیسے کچھ ہی عرصے میں پاکستان پولیو فری ملک بن جا ئے گا ،1994میں اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی بیٹی آۤصفہ بھٹو کو پولیو کے قطرے پلا کرانسداد پولیو مہم کا اۤغاز کیا تھا تو اسوقت یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اب حکومت خود اس کمپین کا حصہ بن گئی ہے تو جلد ہی ملک سے پولیو کے وبائی مرض کا خاتمہ ہو جا ئے گا مگر یہ خواب ہی رہا ۔ پاکستان میں تادم تحریر پولیو کیسز کی تعداد40 کے قریب ہو چکی ہے ،ۤاۤخری کیس کوہاٹ میں رپورٹ ہوا جہاں 30 ماہ کے بچے میں پولیو کی تصدیق ہو ئی ۔ پولیو جو ہمارے بچوں کا دشمن ،ہماری خوشیوں کا قاتل ہے اس کے خاتمے کےلئے ہم بطور پاکستانی شہری ہم کیا کردار ادا کررہے ہیں ۔
دنیا میں دو ہی ممالک افغانستان اور پاکستان پولیو متاثرہ ہیں ،افغانستان میں جنگ کی صورتحال اور پاکستان میں مہاجرین کی اۤمدورفت نے پولیو کے خاتمے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں ۔افغانستان میں شاید پولیو کمپین کا تسلسل نہ رہا ہو مگر حکومت پاکستان تو باقاعدگی کے ساتھ پولیو مہم چلا رہی ہےلیکن پولیو کے کیسز کم ہونے کی بجائے پھر سے بڑھ رہے ہیں۔ۤاۤخر کیوں ؟ ۤآج کے دور کا یہ سب سے بڑا سوال ہے اور اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پولیو کے خاتمے کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ ناخواندگی اور ہمارے سماجی رویے ہیں۔پولیو ویکسین کے بارے معلومات میں کمی ،توہم پرستی ،بے بنیاد مفروضے ،افواہیں ،پولیو ٹیموں کو درپیش سیکورٹی مسائل وہ بڑی وجوہات ہیں جو پولیو کے خاتمے کی راہ میں حائل ہیں ۔خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں کے لوگ بلاخوف و خطر یہ فیصلہ دیتے ہیں کہ انہوں نے پولیو کمپین نہیں ہونے دینی اور علاقے میں بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلوانے ۔ایک پولیو ورکر کے مطابق صرف پشاور مییں20 ہزار والدین نے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کیا ۔پولیوہیلتھ ورکرز پر حملے معمول بن چکے ،رواں برس کے ان دس ماہ میں اب تک 17پولیو ورکرز اس مشن یں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر چکے ۔
اۤخر پولیو ورکرز کو کیا پڑی ہے کہ وہ دوسروں کے بچوں کی صحت و زندگی کےلئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو کے قطرے پلائیں ۔کیا وہ یہ پیسوں کےلئے کرتے ہیں تو ایسا بالکل نہیں کیونکہ ایک ہیلتھ ورکرز کو اتنے پیسے نہیں ملتے کہ وہ ان پیسوں کےلیے اپنی جان داو پر لگا سکے یہ تو ایک مشن ہے ایک کاز ہے جس کےلئے پولیو ورکرز دن رات ایک کردیتے ہیں ۔یوں تو ہر پولیو ہیلتھ ورکر کی ایک اپنی ہی کہانی ہے اور تمام کمیونٹی موبلائزرزہی ہمارے سپر ہیروز ہیں مگر آۤج ہم آٓپکی ملاقات ایک ایسی قابل فخراور باہمت پولیو ہیلتھ ورکرسے کراتے ہیں جنہوں نے ثابت کیا کہ خواتین کسی بھی میدان میں مردوں سے کم نہیں اور جب وہ کچھ کرنے کا ٹھان لیتی ہیں تو کر کے رہتی ہیں ۔راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی کمیونٹی موبلائزر عظمت رسول ان سپر ہیروز میں سے ایک ہیں۔ یہ ٹیکسلا کے ایک محلے سے تعلق رکھنے والے ننھے روشن کی موت تھی، جس نے عظمت رسول کو پولیو کے خاتمے کی ٹیم میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔روشن ایک چار سال کا خوبصورت اور گول مٹول بچہ تھا جس کا باپ پھلوں کا تاجر ہے،اس کی خوبصورتی کے سبب اس کے والدین نے اسے پولیو کے قطرے پلانے کی اجازت نہیں دی۔وہ اپنے تمام بہن بھائیوں میں خؤبصورت سمجھا جا تا تھا اور والدین کو خدشہ تھا کہ پولیو سے بچاو کے قطروں سے اس کی صحت پر منفی اثر پڑے گا۔"
روشن کو بنیادی حفآظتی ٹیکے بھی نہیں لگوائے گئے ۔اور یوں اس کی قوت مدافعت نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے والدین کی جاہلانہ محبت کے ہاتھوں پولیو وائرس کا شکار ہوگیا اور ایک سال بعد منوں مٹی تلے چلا گیا۔والدین جس خوبصورت بچے کو پولیو لکے قطروں سے بچاکر یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ اسے منفی اثرات سے محفوظ رکھ رہے ہیں دراصل وہ اپنی ناخؤاندگی، کم معلومات ،اور وسوسوں کی وجہ سے اپنے بچے کو پولیو وائرس کے حوالے کر رہے تھے۔
عظمت رسول نے موجودہ چیلنجوں کا خاکہ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو پولیو سے پاک زون میں تبدیل کرنے کے لیے اپنے ذاتی عزم کو دہرایا۔
"سچ پوچھیں تو، میرے انسداد پولیو کے سفر کا آغاز ہموار نہیں تھا۔"
عظمت رسول کا کہنا ہے کہ میں نے نوزائیدہ بچوں کو رجسٹر کرنے کے لیے ایک گھر کا دورہ کیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ ایک ڈراؤنے خواب میں بدل گیا۔ میرے آنے کے مقصد اور پولیو کے قطرے پلانے کے بارے میں شکوک و شبہات کی وجہ سے خاندان نے مجھے گھر کے اندر بند کر دیا۔
لیکن میں گھبرائی نہیں ۔میں نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی ان سے بات چیت کرنے کی کوشش جا ری رکھی حتی کہ وہ مجھے سننے پر مجبور ہو گئیں ۔ میں نے خواتین کو اپنے بچوں کے بارے بتایا۔ پھر میں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ والدین کی پریشانی قابل فہم ہے اور ان کو یقین دلانے کے لیے خاندانوں کے ساتھ مل کر کام کرنا میرے کام کا حصہ ہے۔"
میں نے ان کو بتایا کہ میں خود پانچ بچوں کی ماں ہوں ۔ میرا سب سے چھوٹا بچہ تین سال کا ہے اور اسے حال ہی میں ایک پلے گروپ میں داخل کیا گیا ہے۔ "یہ تفصیلات سننے کے بعد خواتین قائل ہو گئیں۔ اور انہوں نے مجھے اۤزاد کرنے کا اعادہ کیا ۔
عظمت رسول کہتی ہیں کہ اس کے بعد انھوں نے اپنے شناختی کارڈ جو ان کو محکمہ صحت کی جانب سے جاری کیا گیا تھا بھی خواتین کو دکھایا۔ عتطت رسول نے ساتھ ساتھ بچوں کے سرٹیفکیٹ بھی دکھائے جو بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کے اہم فوائد پر روشنی ڈالتے ہیں۔ لیکن، شاید، سب سے اہم فتویٰ کتابچہ تھا جس کی تمام سرکردہ علمائے کرام نے توثیق کی ہے۔
"کچھ گھنٹے بات کرنے کے بعد - میں اپنے دورے کے مقصد سے متعلق ان کے تمام سوالوں کے جواب دینے میں کامیاب ہوگئی۔"
اس کے علاوہ عظمت رسول ایک اور واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ"میرے سپروائزر نے مجھے ایک خاندان سے متعلق آگاہ کیا۔ وہ ابھی میرے علاقے میں ہجرت کر کے آئے تھے اور پولیو کے قطروں کے مخالف تھے۔"
عظمت کہتی ہیں چونکہ وہ کافی بلند حوصلہ ہیں لہذا ان پاس جاتے ہوئے ان کو بلکل گھبراہٹ نہیں ہوئی۔ "لیکن جب متعدد بار دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد کوئی جواب موصول نہیں ہوا تو میں نے گھر میں داخل ہونے کے چھت کا انتخاب کیا۔
"میں ایک پڑوسی گھر کی چھت پر چڑھی اور پھر وہاں سے، خاندان کے صحن میں داخل ہو گئی۔"
یہ ایک کامیاب مشن ثابت ہوا۔ عظمت رسول نے اس خاندان سے بات کرتے ہوئے آٹھ بچوں کو پولیو سے بچاو کے قطرے پلائے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ اب ایسی جرات سے باز رہیں گی۔
"میں جانتی ہوں کہ یہ ایک خطرناک اقدام تھا۔ لیکن اس سے پتہ چلتا ہے کہ میری کام سے کس حد تک وابستگی ہے۔"
عظمت رسول اپنے شوہر کی حمایت کی شکر گزار ہیں۔ وہ کہتی ہیں وہ ہر مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ "شروع شروع میں وہ میرے کام کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ لیکن عظمت کہتی ہیں کہ جب میں نے ان کو بتایا کہ میرے کام کرنے کا مطلب ہے کہ نا صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر سے پولیو کا خاتمہ ہو جائے گا، تو وہ راضی ہو گئے۔
اس کے علاوہ عظمت کہتی ہیں کہ موبلائزرز کا مقصد بچوں کو پولیو جیسی بیماری سے بچانا ہے جو ایک نیک مقصد ہے۔ عظمت رسول کہتی ہیں جب میں نے یہ بات کی تو میرے شوہر جو کہ گھروں کی تعمیر کرتے ہیں راضی ہو گئے۔
ان کا خیال تھا کہ ہم جیسے ورکر شاید کبھی ملکی ترقی میں کردار ادا نہیں کر سکتے۔ لیکن جب میں نے ان کو یہ سب باتیں بتائیں تو وہ خوش ہو گئے اور ان کا رویہ بدل گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کام سے نا صرف ہم حلال رزق روزی کما سکتے ہیں بلکہ اپنے ملک کے بچوں کے مستقبل کو بھی محفوظ بنا سکنے کے قابل ہو جائیں گے۔
عظمت رسول جیسی بہت سی حوصلہ مند خواتین کمیونٹی موبلائزرز کا کردار ادا کرہی ہے اور بہت سے مر ورکرز بھی اپنے کام میں کسی سے کم نہیں ہیں ۔اگر ہم صرف پنجاب کی بات کریں تو کمیونٹی موبلائزرز (سی ایمز) پنجاب کے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ کی اختراع ہیں جن کی قیادت سیکریٹری صحت نادیہ ثاقب کر رہی ہیں۔ یونیسیف نے راولپنڈی اور لاہور کی یونین کونسلوں میں ترجیحی بنیادوں پر 400 کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کو پولیو ٹیموں میں شامل کرنے کے لیے فعال طور پر تعاون کیا ہے۔
کمیونٹی موبلائزر کو مقامی لیڈروں کے ساتھ اعتماد پیدا کرنے کا کام سونپا جاتا ہے۔ اس میں والدین کے ساتھ مادری زبانوں میں بات چیت کرنا، پولیو سے متعلق خدشات کو دور کرنا، یونین کونسل کے اندر تمام بچوں کا اندراج کرنا اور مہم سے پہلے پولیو ٹیموں کو والدین کی جانب سے پولیو ویکسین کے خلاف مزاحمت کی اطلاع دینا شامل ہے۔
کمیونٹی موبلائزرز یہ بھی یقینی بناتے ہیں کہ پولیو ٹیموں کو تمام گھرانوں کے ہر بچے تک رسائی حاصل ہو ۔
راولپنڈی اور لاہور میں ترجیحی اور زیادہ خطرہ والی موبائل آبادی کا تناسب 40 فیصد ہے۔ جن کی اکثریت تحصیل ٹیکسلا میں رہتی ہے ۔
پنجاب میں 2019 اور 2020 میں بالترتیب 12 اور 14 وائلڈ پولیو کیسز رپورٹ ہوئے۔ پولیو کا آخری مثبت کیس اگست 2024 میں چکوال سے رپورٹ ہوا ہے جو کہ راولپنڈی سے متصل ضلع ہے۔ راولپنڈی کے ماحولیاتی نمونوں میں بھی پولیو وائرس مسلسل پایا جا رہا ہے۔جو کہ خطرے کی ایک گھنٹی ہے
لیکن پنجاب کا وائرس کی نگرانی کا نظام انتہائی موثر ہے۔ جس ک ذریعے بر وقت پولیو وائرس کی گردش کا پتہ لگایا جاتا ہے۔
پنجاب میں پولیو پروگرام کے سربراہ رانا عدیل تصور نے فرنٹ لائن پولیو اور کمیونیکیشن ورکرز کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ پروگرام کا اثاثہ ہیں۔
"میں اپنے بہادر کارکنوں، خاص طور پر خواتین کی محنت کا اعتراف کرنا چاہوں گا، جو صوبے کے ہر بچے کو معذوری کے وائرس سے بچانے کے لیے پرعزم ہیں۔ ہم مل کر جلد ہی پولیو کے مکمل خاتمے کا ہدف حاصل کر لیں گے۔"
عظمت رسول اس جذبے کی تائید کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس مرض کے خاتمے تک ہر انسداد پولیو مہم میں حصہ لیں گی۔ ضرورت پڑنے پر وہ ہر دروازے پر دستک دینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اب وہ کسی بھی وقت چھت پر نہیں چڑھیں گے۔
پولیو کے خلاف جنگ کے اصل ہیرو ہمارے یہ پولیو ہیلتھ ورکرز ہیں جنہیں سراہا جا نا اور انکا ساتھ دینا ہر پاکستانی کا فرض ہے ۔اور ہمیں چاہیے کہ ہر انسداد پولیو مہم میں اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائیں یہ ہامرے بچوں کو ہم پر پہلا حق ہے اور ملکی خدمت ا پہلا فرض بھی ۔ہر گھر میں جہاں پانچ سال سے کم عمر کا بچہ موجود ہے اس کےلئے پولیو کے قچرے پینا لازم ہو نا چاہیے ،پولیو ہیلتھ ورکرز کے جذبے کو صرف سلام کرنا کافی نہیں ہمیں اپنے سماجی رویے تبدیل کر کے اس انسداد پولیو مہم کا حصہ بننا پڑے گا ۔اپنے ارد گرد کے لوگوں کو جہاں ہمیں کوئی پولیو کے قطرے پلانے سے انکاری نظر آئے اسے قائل کرنا ہو گا کہ اپنے بچے کو عمر بھر کی معذوری سے بچانا ہے تو پھر پولیو کے دوقطرے لازمی ہیں ۔اۤج ہمیں یہ عہد کرنا ہے کہ پاکستان کو پولیو فری بنانا ہے تو ہر بچے کو پولیو کے قطرے پلانا ہے ۔
نوٹ:رائٹر اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی سینئر صحافی ہیں،جو گزشتہ 18 سال سے ماحولیاتی، صنفی امتیاز اور سیاسی مسائل پر لکھ رہی ہیں،اس سے اس ایڈریس پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
Shakila.jalil01@gmail.com