(24نیوز) دلفریب آواز کی مالک گلوکارہ نسیم بیگم کومداحوں سے بچھڑے53 برس بیت گئے، مگر مداحوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں،انہوں نے 1960ءسے 1964ءتک بہترین خاتون گلوکارہ کے طور پر 4 نگار ایوارڈ حاصل کیے تھے، 12سالہ کیریئرکے دوران انہوں ںے جتنے بھی گانے گائے وہ تقریباً سپرہٹ رہے۔
1936ءکو امرتسر میں پیدا ہونے والی نسیم بیگم کاخاندان قیام پاکستان کے بعدلاہور منتقل ہوگیاتھا، گائیکی کاانہیں بچپن ہی سے شوق تھا، نو عمری ہی میں گلوکارہ فریدہ خانم کی بڑی بہن مختار بیگم ( آغا حشر کی اہلیہ) سے کلاسیکل موسیقی کی تعلیم حاصل کرناشروع کردی تھی ،1958ءمیں ریڈیو پاکستان لاہور سے فنی سفرکاباقاعدہ آغاز کیا پھرموسیقار شہریار نے اپنی فلم”بے گناہ“کے ایک نغمے ”نینوں میں جل بھر آئے روٹھ گیا میرا پیار“ کے ذریعے فلم انڈسٹری میں متعارف کروایا لیکن وہ شہرت کی بلندیوں پر1964ءمیں فلم”حویلی“کے گانے”میرا بچھڑا بلم گھرآگیا“کے ذریعے پہنچیں۔
نسیم بیگم کی آواز ملکہ ترنم نورجہاں اورسمن کلیان پور سے ملتی تھی جس کا انہیں نقصان بھی ہوا کیونکہ ان کے اکثر گانوں کو لوگ ملکہ ترنم یا سمن کلیان پور کے گانے ہی سمجھتے رہے، 1955 سے 1964 تک نسیم بیگم کے عروج کا زمانہ تھا،ان کی آواز میں اداسی،کرب اورتڑپ تھی لیکن انہوں نے شوخ گیت بھی بہت مہارت سے گائے۔
موسیقار صفدرحسین نے فلم ”گل بکاﺅلی“ میں ان سے ایک کلاسیکل گیت ”چلے مور کی چال،کرے سب دُنیا کو پامال جوانی دیوانی“گوایا جواداکارہ جمیلہ رزاق پر فلمایا گیا تھا،اسی فلم کا ایک ڈوئٹ ”جوانی مسکرائے گنگنائے گائے تیرے میرے پیار کے دن آئے“ نسیم بیگم اورزبیدہ خانم نے پشتو دھن پر گایاتھا۔
نسیم بیگم کو پہلی کامیابی ایس ایم یوسف کی 1960 میں بننے والی فلم ”سہیلی“ سے ملی تھی جس کے سارے گیت نسیم بیگم نے گائے جن میں ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے،کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا،ہم نے جو پھول چُنے دل میں چبھے جاتے ہیں،مکھڑے پہ سہرا ڈالے آجا او آنے والے شامل تھے۔
نسیم بیگم کے گائے ہوئے مشہورگیتوں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سوبار چمن مہکا،اس بے وفا کا شہر ہے‘چندا توری چاندنی میں، نگاہیں ہوگئیں پرنم،ہم بھول گئے ہر بات‘ ہم نے جو پھول چُنے ‘آجاﺅ آنے والے‘میری نظریں ہیں تلوار‘دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا‘میرا بچھڑا بلم گھر آگیا‘رنگ محفل ہے اور نہ تنہائی‘میں پھول بیچنے آئی‘سانوں وی لے چل نال وے اورچھپ گئے ستارے ندیا کنارے نمایاں ہیں۔
نسیم بیگم نے سلیم رضا‘منیر حسین‘مہدی حسن‘ احمد رشدی اور مسعود رانا کے ساتھ متعدد ڈوئٹس بھی گائے جو مقبول ہوئے تھے،1962 میں فلم ”اولاد“کے گیت نسیم بیگم کو شُہرت کی بلندیوں پر لے گئے جن میں تم ملے پیار ملا اب کوئی ارمان نہیں،نام لے لے کے تیرا ہم تو جیے جائیں گے،تم قوم کی ماں ہو سوچو ذرا اورعورت سے ہمیں یہ کہنا ہے شامل تھے، ریاض شاہد کی فلم”شہید“کے گانے بھی نسیم بیگم نے گائے جن میں اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو، نقاب جب اُٹھایا، شباب رنگ لایا،حبیبی ہیا ہیا، میری نظریں ہیں تلوار،جب سانولی شام ڈھلے اور رات کی شمع جلے شامل تھے،ریاض شاہد کی فلم”زرقا“ میں نسیم بیگم کی آواز میں صرف ایک گیت ”میں پھول بیچنے آئی“شامل تھا،فلم ”باجی“کے لئے انہوں نے دو گیت گائے ،ان کاگایا ہوامشیر کاظمی کا ترانہ ”اے راہِ حق کے شہیدو“دل کو چھو لینے والے انتہائی پراثر ترانوں میں سے ایک ہے جوقومی نغمے کی حیثیت اختیارکرچکاہے۔
نسیم بیگم نے اردوکے ساتھ ساتھ پنجابی فلموں کے لئے بھی گیت گائے جن میں گڈی گڈا کے علاوہ کرتار سنگھ،تیس مارخان اورمکھڑا چن ورگاجیسی فلمیں شامل ہیں،”کرتار سنگھ“ میں وارث لدھیانوی کالکھاہوا شادی بیاہ کا ایک گیت”دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا“گاکرانہوں نے امرکردیا،نسیم بیگم کاگایاہوا ایک گیت”ہم بھول گئے ہربات“لتا منگیشکر نے بھارتی فلم”سوتن کی بیٹی“کے لئے بھی گایاتھا،اسی طرح نسیم بیگم کے کئی اور گیت بھی بھارت میں کاپی کئے گئے تھے۔
نسیم بیگم نے مسلسل چارنگار ایوارڈزکے علاوہ پرائیڈ آف پرفارمنس بھی حاصل کیاتھا،انہوں نے لاہور کے معروف پبلشر دین محمد سے شادی کی تھی جن سے ان کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں، وہ 29 ستمبر1971ءکوراہی ملک عدم ہوگئی تھیں۔