ایک کے بعد ایک کیس،عمران خان کیا باہر آپائیں گے؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
توشہ خانہ کیس میں چئیرمین تحریک انصاف کی سزا معطل کرنے کا حکم نامہ جاری ہو چکا ہے اور ان کے رہائی کی احکامات بھی جاری کیے جا چکے ہیں ۔ جب کہ خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم کو 30 اگست تک جیل میں ہی قید رکھنے کا حکم دے دیا۔پروگرام’10تک‘میں میزبان ریحان طارق نے گقتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اسلام آباد میں قائم خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے چیئرمین پی ٹی آئی کو سائفر کیس میں 30 اگست تک جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں رکھنے کا تحریری حکمنامہ سپرنٹنڈنٹ اٹک جیل کو ارسال کر دیا۔ مراسلے میں جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے کہا کہ ملزم کو جیل میں ہی قید رکھا جائے اور 30 اگست (کل بروز بدھ) کو عدالت میں پیش کیا جائے۔تحریری فیصلہ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے ٹرائل کورٹ کی جانب سے تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا معطل کی جاتی ہے ٹرائل کورٹ نے الیکشن ایکٹ کے تحت الیکشن کمیشن کی کمپلینٹ پر سزا کا فیصلہ سنایا سزا معطلی کے فیصلے میں سپریم کورٹ کے قائم علی شاہ کیس کا حوالہ شامل سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر کیس میں سزا معطل ہو سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ ضمانت دینا یا انکار کرنا ہائی کورٹ کی صوابدید ہے اس کیس میں دی گئی سزا کم دورانیے کی ہے عدالت سمجھتی ہے کہ درخواست گزار سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی کا حقدار ہے سزا معطلی کی درخواست منظور کر کے پانچ اگست کو ٹرائل کورٹ کا فیصلہ معطل کیا جاتا ہے درخواست گزار کو ایک لاکھ روپے کے مچلکے داخل کرانے پر ضمانت پر رہا کیا جائے،چئیرمین تھریک انصاف کے حق میں فیصلہ آچکا ہے لیکن ان کی مشکلات ابھی کم نہیں ہوئی بلکہ مزید بڑھی ہے اور جیسا پی ٹی آئی کی وکلا ٹیم عوام کو اس کیس کے متعلق بتا رہی ہے وہ حقائق سے بالکل برعکس ہے۔آج جب چئیرمین تحریک انصاف کو ریلیف ملاتو ان کی قانونی ٹیم سے منسلک بابر اعوان ایڈوکیٹ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سزا معطلی کے بعد ملزم پارٹی چیئرمین کی حیثیت سے بحال ہوگیا، نگران حکومت کو چاہیے کہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنوائے۔