(اظہر تھراج )کیا جنرل باجوہ نے 2018 سے پہلے ہی عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کرلیا تھا؟ کس نے کس کی مدد کی ؟ عمران خان کو کیسے لایا گیا اور کیسے بچایا گیا؟ تمام تفصیلات سامنے آگئیں ۔
سابق وزیر اعظم عمران خان ایک بیانیہ لے کر چل رہے ہیں کہ انہیں عدالت نے صادق اور امین کا سرٹیفیکٹ دیا،اب اس کی اطلاعات آرہی ہیں کہ جو سرٹیفکیٹ ملا وہ بھی جعل سازی سے ملا ،طاقت کے استعمال سے سیاسی انجینئرنگ کے تحت ملا ۔عمران خان کو ’’صادق اورامین‘‘قرار دلوانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار کو دو وکیل بھی دیے گئے۔
مبینہ طور پر سیاسی انجینئرنگ کا یہ سب سے بڑا سکینڈل ہے جس میں سابق آرمی چیف ،سابق چیف جسٹس اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی شامل تھے۔ان کے اس سیکنڈل میں شامل ہونے کے حوالے مختلف تفصیلات سامنے آئی ہیں جو سینئر صحافیوں نے اپنے کالموں میں بیان کی ہیں ۔
2017 میں اسٹیبلشمنٹ نے سپریم کورٹ سے مل کر عمران خان کو این آر او دلوایا ؟ پی ڈی ایم توڑنے کیلئے کیا کیا گیا ؟
انگریزی اخبار’’دی نیوز‘‘ میں شائع ہونیوالی خبر میں انصار عباسی نے جنرل قمر جاوید باجوہ اور ن لیگ کے رہنما ملک احمد خان کی ملاقات کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کو صادق اور امین قرار دلوانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ نے مدد کی اور یہ کام سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ذریعے کروایا گیا ۔ثاقب نثار اور فواد چودھری نے اس خبر کی تردید کردی لیکن سینئر صحافی جاوید چودھری نے کالم لکھ کر اس خبر کی تصدیق کردی ہے ۔
جاوید چودھری اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2 دفعہ این آر او دیا ،ان میں سے پہلا این آراو 2017 کو عمران خان کو دیا گیا،نومبر2016 میں حنیف عباسی نے سپریم کورٹ میں عمران خان اور جہانگیر ترین کیخلاف 2 پٹیشنز دائر کیں ،جس میں بنی گالہ کی اراضی کی منی ٹریل چھپانے کا دعویٰ کیا گیا تھا ،جبکہ جہانگیر ترین نے آف شو رکمپنیاں ،ساڑھے 18 ہزار اراضی چھپائی ۔اس وقت جنرل قمر جاوید آرمی چیف ،جسٹس ثاقب نثار چیف جسٹس اور جنرل فیض حمید آئی ایس آئی کے ڈی جی سی تھے۔نواز شریف نااہل ہوچکے تھے اور عمران خان ،جہانگیر ترین کی نااہلی سامنے نظر آرہی تھی ۔عمران خان ،جہانگیر ترین کے ہمراہ جنرل باجوہ سے ملاقات کی ،جنرل باجوہ نے ڈی جی سی فیض حمید کو عمران خان کی مدد کی ہدایت کردی ۔اس کے بعد جنرل فیض حمید اور چیف جسٹس ثاقب نثار کی ملاقات ہوئی ۔ ثاقب نثار عمران خان اور جہانگیر ترین دونوں کو بیک وقت صادق اور امین ڈکلیئر کرنے کے لیے تیار نہیں تھے‘ ان کا کہنا تھا میرے ساتھی جج نہیں مانیں گے۔
آپ دونوں میں سے کسی ایک کو بچا لیں‘فیصلہ ہوا سردست جہانگیر ترین کو قربان کر دیاجائے تاہم فیوچر میں ان کی بحالی کی گنجائش ضرور رکھی جائے‘ اس کے بعد چیف جسٹس کو دو وکیل دیے گئے‘ان وکیلوں نے عمران خان اور جہانگیر ترین کا فیصلہ لکھا‘15 دسمبر 2017 کو فیصلہ سنانے کا اعلان ہوا۔
فیصلے کا وقت آ گیا لیکن ججز کورٹ نمبر ایک میں تشریف نہیں لائے‘ٹیلی ویژن اسکرینیں گرم ہو گئیں اور اسلام آباد‘ راولپنڈی اور بنی گالا میں دوڑیں لگ گئیں‘ دوبارہ رابطے ہوئے اور یوں 3 بج کر20 منٹ پر عمران خان کو صادق اور امین ڈکلیئر کر دیا جب کہ جہانگیر ترین مجرم قرارپا کر سیاست سے تاحیات نااہل ہو گئے‘ترین صاحب ’’بیلنسنگ ایکٹ‘‘ کا شکار ہو گئے‘ عمران خان چند دن بعد شکریہ ادا کرنے ایک بار پھر جنرل باجوہ کے گھرگئے اور ان سے فرمائش کی’’ہم نے جہانگیر ترین کو ضرور بچانا ہے۔
میں اس کے بغیر حکومت نہیں چلا سکوں گا‘‘ فیض حمید کو ایک بار پھر ٹارگٹ دے دیا گیالیکن پھر فروری 2018میں عمران خان کا بشریٰ بی بی سے نکاح ہو گیا‘ مارچ میں عمران خان کی جنرل باجوہ سے تیسری ملاقات ہوئی‘ اس میں جہانگیر ترین کا ذکر آیا تو عمران خان نے کہا ’’جنرل صاحب آپ اس کو ابھی رہنے دیں‘ ہم فیوچر میں دیکھیں گے‘‘ جنرل باجوہ یہ سن کر حیران رہ گئے‘ یہ عمران خان کی طرف سے ان کو پہلا دھچکا تھا۔
اسٹیبلشمنٹ نے جہانگیر ترین کو ٹٹولا تو پتا چلا‘ بشریٰ بی بی کے سابق خاوند خاور فرید مانیکا کا ایک بھائی ترین صاحب کا پرانا دوست ہے‘ اس نے انھیں بتایا’’آپ کے گھر جادو ٹونا پہنچ چکا ہے‘ آپ اب برباد ہو جائیں گے‘‘ ترین صاحب نے یہ بات عون چوہدری کو بتا دی‘عون چوہدری نے عمران خان کو بتا دیا اور یوں جہانگیر ترین کا پتہ کٹ گیا‘ ترین صاحب اس وقت تک بشریٰ بی بی سے نہیں ملے تھے۔
ان کی خاتون اول سے پہلی ملاقات 18 اگست 2018 کو ایوان صدر میں وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب میں ہوئی ‘ بشریٰ بی بی نے اس دن سفید عبایا اور سفید نقاب پہن رکھا تھااور یہ پہلی قطار میں جنرل باجوہ کی بیگم کے ساتھ بیٹھی تھیں‘ وزیراعظم حلف کے بعد فوری طور پر اسٹیج سے اتر کر اپنی بیگم کے پاس آئے اور انھیں مبارک باد پیش کی۔
یہ بھی پڑھیں :قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس،اہم فیصلوں کی منظوری
بشریٰ بی بی بعدازاں جہانگیر ترین کے پاس گئیں اور ان سے کہا ’’ میں آج سفید لباس اس لیے پہن کر آئی ہوں تاکہ آپ کا یہ شک دور کر سکوں‘ میں جادوگرنی نہیں ہوں‘‘ یہ سن کر جہانگیر ترین کو محسوس ہوا ’’میں آج سے عمران خان سے فارغ ہو چکا ہوں‘‘ یہ خدشہ سچ ثابت ہوا‘ آنے والے دنوں میں واقعی عون چوہدری اور جہانگیر ترین دونوں فارغ ہو گئے۔
اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے دور میں جب بھی جہانگیر ترین کو ریلیف دینے کی کوشش کی ‘ خان صاحب نے انکار کر دیا‘ میں نے ان واقعات کی تصدیق کے لیے 25 دسمبر کو جہانگیر ترین سے رابطہ کیا‘ ترین صاحب نے ان تمام واقعات کی تصدیق کر دی۔
تاہم انھوں نے سردست تاریخیں اور فیصلہ لکھنے اور جسٹس ثاقب نثار سے ملنے والے وکلاء کے ناموں کی تصدیق سے معذرت کر لی۔
عمران خان کے پہلے این آراو کے نتیجے میں دو سیاست دانوں کی سیاست تباہ ہو گئی‘ جہانگیر ترین اور حنیف عباسی‘ حنیف عباسی کے خلاف 2012میں ایفی ڈرین کا کیس بنا تھا‘یہ عدالتوں میں چلتا رہا‘عمران خان کو حنیف عباسی کی تقریریں اور ٹیلی ویژن شو اچھے نہیں لگتے تھے لیکن 2016 اور 2017 کی پٹیشن کے بعد یہ تکلیف دشمنی میں بدل گئی۔
25 جولائی 2018 کو جنرل الیکشن تھا‘حنیف عباسی الیکشن کمپیئن میں مصروف تھے‘ ان کی اگلی پیشی الیکشن کے بعد دو اگست 2018 کو تھی لیکن پھراچانک شاہد اورکزئی نے ’’عام شہری‘‘ کی حیثیت سے راولپنڈی ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کر دی‘ عدالت نے فوری طور پر یہ پٹیشن قبول کر لی اور اینٹی نارکوٹیکس کورٹ کو 8 دن میں فیصلہ سنانے کا حکم دے دیا۔
حنیف عباسی سپریم کورٹ گئے لیکن سپریم کورٹ نے بھی یہ فیصلہ برقرار رکھا یوں13جولائی کو سماعت شروع ہوئی اور 21 جولائی کو الیکشن سے چار دن پہلے حنیف عباسی کو عمر قید ہوگئی جب کہ یہی عدالت اس سے پہلے ایفی ڈرین کے چھ ملزموں کو بری کر چکی تھی‘ حنیف عباسی 9 ماہ جیل میں رہے‘ ڈاکٹر اسلم مرحوم جنرل فیض حمید کے ذاتی دوست تھے۔
انھوں نے بہت کوشش کی مگر اسٹیبلشمنٹ اس وقت بری طرح عمران خان کی محبت میں گرفتار تھی‘ یہ انھیں کوئی تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی لہٰذا حنیف عباسی محبت کی اس سولی پر لٹکے رہے‘ حنیف عباسی کی فیملی ڈاکٹر اسلم اور میرے پاس آتی تھی۔
ہم انھیں تسلی دے کر گھر بھجوا دیتے تھے مگر انھیں اصل بات نہیں بتاتے تھے بہرحال اللہ نے کرم کیا اور لاہور ہائی کورٹ نے 11 اپریل 2019 کو حنیف عباسی کی ضمانت لے لی‘ میں نے یہ خبر سن کر ڈاکٹر اسلم کو مبارک باد دی‘ مرحوم کا کہناتھا‘ یہ فیصلہ صرف اور صرف میرٹ پر ہوا‘ عدالت کو حنیف عباسی کی مظلومیت پرترس آ گیا۔
میں نے ان سے اتفاق نہیں کیا‘ کیوں؟ کیوں کہ میں جانتا تھا اس بارضمانت رکوانے کی کوشش نہیں کی گئی تھی اگر کوشش کی جاتی تو یہ کیس جسٹس عالیہ نیلم کی عدالت میں نہ لگتا اور اگر لگ بھی جاتاتو جج صاحبہ خود ہی معذرت کر لیتیں بہرحال اللہ نے کرم کیا اور حنیف عباسی گھر واپس آگیا۔
ضرور پڑھیں : وزیراعلیٰ کاپولیس وردی تبدیلی کا نعرہ سچ نہ ہوسکا
یہ ایک مبینہ داستان تھی کہ کس طرح اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کی مدد کی ،عمران خان کو ایک این آر او حکومت میں لانے کیلئے دیا گیا دوسرا این آر او حکومت بچانے کیلئے پی ڈی ایم کو توڑ کر دیا گیا ،جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید نے ناصرف عمران خان کو بچانے کی مدد کی بلکہ نواز شریف کو نااہل کرنے کیلئے بھی اسٹیبلشمنٹ عدالتوں کی مدد کرتی رہی ۔ پانامہ کیس کے دوران آصف کھوسہ نے عمران خان سے درخواست لانے کا کہا تھا۔اسد عمر اور عمران خان خود اس کا اعتراف کرچکے ہیں ۔
ان کرداروں سے پردہ اٹھانے والے ایک جج نااہل ہوچکے،ایک کا انتقال ہوگیا ،نواز شریف نااہل ہیں،جہانگیر ترین بھی نااہل ہیں،عمران خان ،سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ،سابق آرمی چیف جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ،جنرل(ر)فیض حمید آج آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں،عمران خان کو این آر او دینے سے ملک تباہی کے دھانے پرپہنچ چکا ہے۔