گریٹر اسرائیل اور مسلمانوں کا تصور خلافت (2)

از:اسلم اعوان

Dec 30, 2024 | 12:56:PM
گریٹر اسرائیل اور مسلمانوں کا تصور خلافت (2)
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: 24news
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

  گریٹر اسرائیل کے برعکس آج بھی دنیا میں عباسی ماڈل پہ جدید مسلم خلافت کی بحالی کا تصور قابل عمل منصوبہ بن سکتا ہے ، خلافت عثمانیہ جو بلاشبہ ماضی کی اہم طاقت تھی جس نے اپنے عروج پر بلقان سے آسٹریا تک ، بحیرہ اسود کے پورے ساحل ، مشرق وسطیٰ کا بیشتر حصہ (بشمول دجلہ اور فرات اور بحیرہ احمر کا بیشتر ساحل) ، مصر اور جنوبی بحیرہ روم کے ساحل کے بڑے حصوں پر حکمرانی کی تھی ، وہ آج بھی عباسیوں کی سنہرے دور کی مانند ایک کنفیڈریشن کی صورت میں دوبارہ منصہ شہود پہ نمودار ہو سکتی ہے۔

7سو سالوں پہ محیط عباسی خلافت نے دنیائے انسانیت کو فنِ حرب و حکمرانی سے لیکر تہذیب و ثقافت،شعر و اداب، جدید فلسفہ و سائنس ، ریاضی، الجبراء ، سیاسیات ، سماجیات اور تاریخی شعور جیسے لافانی علوم سے روشناس کرایا ، یہ عباسی تھے جنہوں نے اسلام سمیت یونانی فلسفہ اور قدیم سمیری تہذیب کی سائنسی ، ذہنی ، اخلاقی اور فنی میراث کو یوروپ تک پہنچانے کا فرض نبھایا، جس سے استفادہ کرکے اہل مغرب جہالت کی تاریکیوں سے نکل کر علم کی شمع فروزاں کرنے میں کامیاب ہوئے ۔

پانچویں عباسی خلیفہ ہارون کی بیوی زبیدہ تعمیرات ، علم ، فن اور ادب کی سرپرستی کے لیے مشہور تھیں ۔ انھوں نے نہر زبیدہ جیسی عظیم تخلیق کے علاوہ بغداد میں کتابوں اور مخطوطات کے وسیع ذخیروں کی حامل ’ زبیدیہ لائبریری ‘ تعمیر کرائی۔ زبیدہ  کا محل ادبی اور سائنسی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہتا تھا۔ زبیدہ ادب اور فنون کی فراغ دل سرپرست تھیں ، ان کا دربار ثقافتی سرگرمیوں کے لیے مشہور ہوا کرتا تھا ۔ رابرٹ ہولینڈ کہتے ہیں کہ زبیدہ خاص طور پہ شاعری کی بڑی سرپرست تھیں ، انھوں نے اس وقت کے بہت سے شعراء کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں مدد فراہم کی تھی، زبیدہ نے شاعری کے ایک مشہور مجموعہ " دیوان الحمسہ " کی تالیف کرائی، جس میں کئی نامور عرب شاعروں کی گراں قدر تخلیقات شامل تھیں۔ زبیدہ کو سائنسی تحقیق اور ریسرچ کی سرپرستی کے لیے بھی جانا جاتا تھا ۔

ان کی علم ، فن اور ادب پروری نے عباسی خلافت میں گداز اور پھلتے پھولتے ثقافتی تمدن کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا  کیا ۔ علی ہذالقیاس انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں آج بھی مسلم ممالک کی مربوط کنفڈریشن کا قیام اسے تیل کے اہم ذخائر ، بڑی آبادی پہ مشتمل انسانی سرمایا ، مشرقی یورپ کے کچھ علاقوں اور سمندری بندرگاہوں پر بہت زیادہ کنٹرول فراہم کر سکتا ہے ۔ عملی طور پر ، کچھ رکاوٹوں اور تضادات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے ، یعنی وہ علاقے جو علیحدگی پسندی اور فرقہ وارانہ تصادم کا گڑھ نہیں وہ تو تقریباً فوراً ہی خلافت فیڈریشن میں شامل ہو جائیں گے البتہ کہیں کہیں سنی ، شیعہ تنازعات جاری رہیں گے ، آئی ایس آئی ایس اور اسلام پسندوں کے کئی دوسرے تلخ ذائقے (جو خود کو اس بات سے ہم آہنگ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہوں گے کہ استنبول میں دوبارہ قائم ہونے والے دارالحکومت سے منسلک ہونے کی خاطر اپنے گروہی تعصب کے کسی بھی ذائقے کو ترک کرنے کو تیار نہیں ) کچھ مسائل پیدا کریں گے ۔

 ایران نواز دھڑے بھی عراق میں کنفیڈریشن پسندوں کے خلاف احتجاج کر سکتے ہیں اور روس بھی بلقان میں ایسی ہی مزاحمت کرے گا  تاہم پھر بھی دوبارہ بحال شدہ جدید عباسی خلافت بہت سی طاقتوں پر محیط ہو گی ، جو اسے یورپی یونین کی طرح اقتصادی سطح پر یا اس کے قریب تک پہنچا دیں گی اور جدید عہد میں ابھرنے والی یہ خلافت ناقابل تسخیر ہو گی   اگر آج عباسی ماڈل پہ عثمانی خلافت دوبارہ متحد ہو جائے یعنی ممکنہ خلافت کا مکہ اور مدینہ پر کنٹرول ہو تو وہ پہلے ہی مشرق وسطیٰ ، آذربائیجان اور افریقی عرب ممالک کو داخلی خود مختیاری کے عوض خارجہ امور ، کرنسی اور مشترکہ دفاعی نظام پہ رضامند ہو جائے گی۔ یہ وہ کنفیڈریشن ہو گی جسے دنیا کے تیل کی بڑی مقدار پہ بھی تصرف حاصل ہو گا ۔ جدید اسلامی خلافت کا عروج ایشین ممالک خاص طور پر پاکستان کو متحرک کرے گا جو خود ترکوں سے زیادہ خلافت کو بحال کرانے کے خواہشمند ہیں ۔ خلافت کا ہاتھ پاکستان کے ذریعے جنوبی ایشیا پہ وارد ہوا تو اس عہد کی جدید مسلم خلافت دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بھی ہو گی ۔ افغانستان اس کی پیروی کرے گا اور ایران جلد یا بدیر اس کی حصہ بن جائے گا ، ایران کی شمولیت مشکل ضرور ہوگی لیکن ناممکن نہیں ۔ دوسری طرف ہندوستانی مسلمانوں اور بنگلہ دیش میں سیاسی سرشاری بھی خلافت اسلامیہ سے منسلک ہوگی جو ہندوستان کی پکار کو مدہم کرکے برصغیر میں مسلمان اکثریت کو ہم آہنگ بنا لے گی ۔

 اگلے مرحلہ میں ملائیشیا اور انڈونیشیا رفتہ رفتہ خلیج بنگال کے ذریعے خلافت اسلامیہ کا حصہ بننا شروع ہو جائیں گے ۔ دنیا کے بڑے تیل کی سپلائی کنٹرول کے ساتھ ، جوہری طاقت اور بہت بڑی اسلامی فوج باقی دنیا کی مجموعی طاقت سے کہیں زیادہ طاقتور ہو گی ۔ عراق ، شام پہ امریکی تسلط ختم ہوا تو واشنگٹن تیل اور ہتھیاروں کی فروخت سے باہر ہو جائے گا اور خلافت کے کنٹرول میں افغانستان پوست کے کاروبار کو تباہ کر دے گا جس کے بعد عالمی معشت پر امریکی ڈالر کا کوئی اثر باقی نہیں بچے گا ۔ امریکی کاشتہ آئی ایس آئی ایس کے بغیر ، طالبان کے کنٹرول میں یہ علاقے پھلیں ، پھولیں گے اور اسلامی ریاستوں کی تیل کی گھمنڈ والی معیشت کی منڈیاں نہایت تیزی کے ساتھ فروغ پاتی جائیں گی ۔ دنیا بھر کے تمام مسلم ممالک جدید خلافت کی کنفیڈریشن کے بغیر آج کسی نہ کسی صورت میں سینکڑوں مصائب کا شکار ہیں ۔ لاریب ، اگر پورا مشرق وسطیٰ متحد ہو جائے تو مصر زیادہ محفوظ اور مستحکم ہو گا ، جس کا مطلب ہے نہر سویز کے ذریعے تجارت کو بڑھانا یا اس میں توسیع کرنا آسان ہو جائے گا ، خلافت اسلامیہ خشکی اور سمندر دونوں جگہوں پر تیل اور گیس کے وسیع ذخائر اور پورے خطے کی ترقی میں تمام مسلم ممالک کے باہمی تعاون کو ریگولیٹ کرے گی ۔

 جس کے نتیجہ میں مراکش کی سرحد سے لےکر مصری سرحدوں تک ، یہ بحیرہ روم کے ساحل کا تقریباً نصف حصہ ہے جس کا مطلب ہے کہ خلافت کا دس بندرگاہوں اور بحیرہ روم کی تجارت پر ناقابل یقین حد تک اثر و رسوخ بڑھ جائے گا ۔ ایک بار پھر ، اس سے اس مسلم خطہ کی تیز رفتار ترقی میں مدد ملے گی ، جو ممالک عرب بہار کی تباہ کاریوں کے بعد امن کے متلاشی ہیں وہ بھی پُرامن ماحول کے حصول کی خاطر خلافت کی چھتری تلے سلامتی پا لیں گے۔

 بلقان ، یوگوسلاویہ کے زوال کے بعد اس خطہ کی اقوام کے اندر اب بھی گوناں گوں مسائل موجود ہیں ، یونان جو بلقان کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے ، میں پناہ گزینوں کے بہت بڑے بحران کے ساتھ ساتھ معاشی بحران بھی بھڑک رہا ہے ۔ چنانچہ وہ بھی مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ (MENAS) کے قدرتی وسائل اور ان سے پیدا ہونے والی رقم سے استفادہ کرنے کی خاطر خلافت اسلامیہ کا جُز بن سکتے ہیں کیونکہ خلافت کا حصہ بننے کی صورت میں انہیں اپنے دفاع کے لیے ایک پیسہ بھی خرچ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔

 یورپ اور MENAS کے درمیان بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کا تصور کریں اگر وہ متحد ہوں تو اب بحیرہ اسود کے ساحل سے مالڈوویا، یوکرین اور جارجیا جیسی کئی سیکولر ریاستیں بھی جدید خلافت جیسی طاقتور یونین کو جلد ہی قبول کر لیں گے ۔ یہاں تک کہ آذربائیجان سمیت رومانیہ اور بلغاریہ اس قسم کی فیڈریشن سے لطف اندوز ہوں گے حالانکہ وہ ماضی میں اس سے ہچکچاتے تھے ۔ بہر حال، ایک پورے سمندر پر غلبہ حاصل کرنے کا مطلب ارد گرد کے علاقوں کی پوری معیشت کو کنٹرول کرنا ہوگا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین اور روس کے لیے باقی دنیا کا مرکزی دروازہ مسلم فیڈریشن ہو گا کیونکہ بصورت دیگر اس قسم کی بڑی طاقت کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا ، اگر ہر مسلم ملک اپنی داخلی خود مختیاری کو جاری رکھے اور اندرونی نظام اور پالیسیوں میں آزاد ہو، جیسا کہ یورپی یونین کی مثال ہے اور قدرتی وسائل اور انسانی طاقت کو وفاق (خلافت )کی ترقی کے لیے استعمال کریں، تو مسلمان بڑی آسانی سے عالمی طاقت بن سکتے ہیں ۔

نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر