سائفر کیس سرخیوں میں ہے کیونکہ اس کیس کی سماعت کے دوران روزانہ کی بنیاد پر کوئی نہ کوئی ایسا کارنامہ رپورٹ ہوتا جود انتہائی متنازعہ اور غیر اخلاقی محسوس ہوتا ہے۔اس کیس میں بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے وکلا کی مسلسل غیر حاضری ،عدالت کی جانب سے بار ہا موقع دینے کے باوجود حاضری یقینی نہ بنانے پر جب جج ابو الحسنات ذولقرنین نے دونوں ملزمان کے حق دفاع کے لیے سٹیٹ کونسل مقررکی ۔تو ان دونوں رہنماوں کی جانب سے ان وکلا سے شدید بدتمیزی کی گئی بلکہ جج کے ساتھ بھی تلخ کلامی کی ۔اس اس کیس کی سماعت دوران عدالت نے 12 گواہوں کوجرح کے لیے طلب کیا تھا۔جبکہ 13 گواہوں کے بیانات پر جرح مکمل ہو چکی جن میں سے 9 پر سرکاری وکلا نے ہفتہ کے روز جرح کی تھی ۔پروگرام ’10تک ‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ ان نو وکلا پر جرح سے قبل جب شاہ محمود قریشی اور بانی پی ٹی آئی کو عدالت کی جانب سے یہ بتایا گیا کہ ان کے وکلا ٹیم کی مسلسل غیر حاضری پر سٹیٹ کونسل مقرر کی گئی ہے تو دونوں نے عدالت میں بھرپور مزاحمت کی ۔ اس دوران کسی بات پر شاہ محمود قُریشی نے اسٹیٹ ڈیفنس کونسل سے فائل چھین کر دیوار پر مار دی، جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے شاہ محمود قریشی کی بدتمیزی پر انہیں وارننگ دی۔بانی پی ٹی آئی جسٹس ابوالحسنات ذوالقرنین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جن وکلا پر ہمیں اعتماد ہی نہیں وہ کیا ہماری نمائندگی کریں گے، جج صاحب یہ کیا مذاق چل رہا ہے؟ تین ماہ سے کہہ رہا ہوں وکلاء سے ملنے کی اجازت دی جائے، بار بار درخواست کے باوجود اجازت نہیں دی جارہی، مشاورت کے بغیر تو کیس نہیں چل سکتا۔ جس کے بعد جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جتنا آپ کو ریلیف دیا جا سکتا تھا میں نے دیا، وزرش کے لیے سائیکل کی فراہمی یا پھر وکلاء سے ملاقات، آپ کی درخواست منظور کی، میرے ریکارڈ پر 75 درخواستیں ہیں جو ملاقاتوں سے متعلق ہیں۔ جس پر عمران خان نے کہا کہ آپ نے تو ملاقات کا آرڈر کیا لیکن ملاقات کرائی نہیں گئی، اوپن ٹرائل میں کسی کو جیل آنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ادھر بھی سرکار ادھر بھی سرکار یہ مذاق ہو رہا ہے۔جس پر جج نے کہا کہ شاہ محمود قریشی صاحب، اگر آپ خود جرح کرنا چاہتے ہیں تو آپ خود بھی کر سکتے ہیں، تین مرتبہ تاریخ دی مگر آپ کے وکلاء نے آنے کی زحمت نہیں کی۔شاہ محمود نے کہا کہ یہ سرکاری ڈرامہ نہیں چلے گا، اس طرح سے ٹرائل کی کیا ساکھ رہ جائے گی۔جج نے جواب دیا کہ میرے لیے آسان تھا میں ڈیفنس کا حق ختم کر دیتا، میں نے پھر بھی اسٹیٹ ڈیفنس کا حق دیا، اس کسٹڈی کی وجہ سے مجھے یہاں جیل آنا پڑ رہا ہے، وہ بھی تو کسی ماں کے بچے ہیں جن کے کیس جوڈیشل کمپلیکس میں چھوڑ کر آیا ہوں، میں آرڈر کر کر کے تھک گیا ہوں مگر آپ کے وکیل نہیں آتے، سپریم کورٹ نے حکم نامے میں کہا تھا اگر ٹرائل میں رکاوٹیں آتی ہیں تو عدالت ضمانت کینسل کر سکتی ہے۔شاہ محمود نے جج ابو الحسنات کی بات پر کہا کہ سپریم کورٹ کے ضمانت کے فیصلے کا بھی مذاق اڑایا گیا، جیل سے باہر نکلتے ہی ایک اور کیس میں اٹھا لیا گیا۔جج نے استفسار کیا کہ شاہ صاحب اس کیس کو لٹکانے کا کیا فائدہ ہے؟شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جج صاحب جیل میں کوئی خوشی سے نہیں رہتا، میں اپنا وکیل پیش کرنا چاہتا ہوں سرکاری وکیلوں پر اعتبار نہیں، اس پر جج نے کہا کہ آپ اپنے وکیل کو بلا لیں۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پراسیکیوشن کے نامزد کردہ وکیلوں سے ڈیفنس کروایا جا رہا ہے، اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ فیصلہ ہمارے خلاف ہوچکا۔شاہ محمود قریشی نے فرمائش کی کہ میری بات بیرسٹر گوہر سے کرائی جائے۔ جس پر عدالت نے انہیں بیرسٹر گوہر سے بات کرنے کی اجازت دے دی۔اس کے بعد بانی پی ٹی آئی نے بھی اپنے وکیل سکندر ذوالقرنین سے بات کرنے کی اپیل کی جس پر جج نے پولیس کو بانی پی ٹی آئی کی وکیل سے بات کرانے کا حکم دیا۔عدالت نے سماعت کے دوران مزید 9 گواہان پر جرح مکمل ہونے پر سماعت پیر تک ملتوی کر دی تھی ۔آج پھر اس کیس کی سماعت دوران شاہ محمود قریشی اور بانی پی ٹی آئی کی جانب سے وہی کارروائی دہرائی جو اس سے قبل ہفتہ کو کی گئی ۔آج پھر عدالت میں شو شرابہ کیا گیا ۔ آج انہی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے پھر سماعت کی۔ پروسیکیوٹر ذوالفقار نقوی اور عمر بلال عدالت پہنچے، جبکہ سرکاری وکیل اور شاہ محمود قریشی کی اہلیہ اور بیٹی بھی اڈیالہ جیل پہنچیں۔اس موقعے پر عوام اور گواہ بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ سماعت شروع ہوئی تو سابق سیکریٹری پرنسپل وزیراعظم اعظم خان سے جرح کے دوران ماحول ناخوشگوار ہوگیا۔ شاہ محمود قریشی اور بانی پی ٹی آئی غصہ میں آگئے اور شور شرابہ شروع کردیا۔ معاملے کی سنگینی پر جج کو کارروائی کچھ دیر کیلئے موخر کرنا پڑی۔تجزیہ کار ،ماہرین کیا کہتے ہیں؟ دیکھیے اس ویڈیو میں
سیاسی پارہ ہائی،نوازشریف کی چھٹی؟پی ٹی آئی نے سب جماعتوں کو حیران کردیا
Jan 30, 2024 | 10:41:AM
Read more!