(24نیوز)فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل پر کیس کی سماعت میں جسٹس حسن اظہر نے سوال کیا کہ کیا 9 مئی کا جرم دہشتگردی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہے؟
سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی جہاں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیئے،سماعت کے آغاز میں جسٹس جمال مندوخیل نے کل دیے جانے والے ریمارکس پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کل خبر چلی میں نے کہا 8 ججز کےفیصلے کو 2 ججز غلط کہہ دیتے ہیں، خبر پر بہت سے ریٹائرڈ ججز نے مجھ سے رابطہ کیا، میڈیا کی پرواہ نہیں لیکن درستگی ضروری ہے، بات عام تاثرمیں کی تھی اور کہا تھا کہ 8ججز کےفیصلےکو 2 لوگ کھڑے ہوکرکہتے ہیں غلط ہے۔
وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ فوجی عدالتوں کا آرٹیکل 175 کے تحت عدالتی نظام میں ذکر نہیں، فوجی عدالتیں الگ قانون کے تحت بنتی ہیں جو تسلیم شدہ ہے،اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 175 کے تحت بننے والی عدالتوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں، مخصوص قانون کے تحت بننےوالی عدالت کادائرہ اختیار محدود ہوتا ہے۔
جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے 21 ویں آئینی ترمیم میں لکھا ہےفوجی عدالتیں جنگی صورتحال میں بنائی گئی تھیں، شہریوں کے ٹرائل کےلیے آئین میں ترمیم کرنا پڑی تھی، اس پر وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ ٹرائل کے لیے ترمیم کی ضرورت نہیں تھی، ترمیم کے ذریعے آرمی ایکٹ میں مزید جرائم کو شامل کیا گیا تھا۔
جسٹس حسن اظہر نے کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم میں مہران اور کامرہ بیسز کا بھی ذکر ہے، جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں کا ٹرائل کہاں ہوا تھا؟ کامرہ بیس پر حملہ آور ملزمان کا ٹرائل کہاں ہوا تھا ؟ پاکستان کے اربوں روپے مالیت کے 2 کورین طیارے تباہ ہوئے تھے، کیا 9 مئی کا جرم دہشتگردی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہے؟
جسٹس حسن کے سوالات پر وکیل وزارت دفاع نے کہا مہران بیس حملے کے تمام دہشتگرد مارے گئے تھے، اس پر جسٹس حسن سوال کیا کیا مارے جانے کے بعد کوئی تفتیش نہیں ہوئی کون تھے؟ کہاں سے اور کیسے آئے؟ کیا دہشتگردوں کے مارے جانے سے مہران بیس حملے کی فائل بند ہو گئی؟
وکیل وزارت دفاع نے جواب دیا تحقیقات ضرور ہوئی ہونگی،جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوا تھا اور ٹرائل 21 ویں آئینی ترمیم سے پہلے ہوا تھا، اس پر جسٹس حسن نے کہا تمام حملوں کی بنیاد پر آئینی ترمیم کی گئی تھی تاکہ ٹرائل میں مشکلات نہ ہوں۔
بعد ازاں عدالت نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا اور مزید سماعت وقفے کے بعد ہوگی۔