( ویب ڈیسک)پاکستان اس وقت معاشی و سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے ، ایک طرف کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے تو دوسری طرف انرجی کرائسز ہیں ، ایک طرف سیاسی عدم استحکام ہے تو دوسری جانب روپیہ ڈالر کے ہاتھوں زیر ہے، آئی ایم ایف سے قرض پروگرام بحال ہو چکا ہے لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ اثر ملکی معیشت پر نظر نہیں آرہا ، جس کی ایک ہی وجہ ہے کہ ہم بہترین انداز میں ٹیکس اکٹھا نہیں کر پا رہے ، بہت سے تاجر ٹیکس میں ہیرپھیڑ کر کے ملکی معیشت کو بڑا نقصان پہنچا رہے ہیں، ایسا ہی انکشاف سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے انکشاف کیا ہے کہ ملک میں موجود 22 لاکھ دکانداروں میں سے صرف 30 ہزار ٹیکس دیتے ہیں،اگر ان دکانداروں پر صرف 3 ہزار روپے ٹیکس لگادیں تو ان پر زیادہ بوجھ نہیں پڑے گا اور اس سے 6 ارب 60 کروڑ روپے کی خطیر رقم اکٹھی ہو جائے گی ، لیکن بدقسمتی سے ہم ایسا نہ کر سکے ۔
مفتاح اسماعیل کا مزید کہنا تھا کہ میرے وزارت خزانہ کے دور میں جب ہم نے دکانداروں پر ٹیکس لگانے کا سوچا تو دکانداروں نے تھوڑا سے پریشر ڈالا جس پر ہمیں پیچھنے ہٹنا پڑا ، سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے دور میں دکانوں پر ٹیکس اندرونی سیاست کی وجہ سے نہ لگ سکا، دکانداروں کا فرض ہے کہ وہ بھی ٹیکس دیں ۔
اپنے بیان میں مفتاح اسماعیل نے کہا کہ زراعت پر انکم ٹیکس لگائیں گے تو بہت مشکل ہوجائے گی، پراپرٹی پر ٹیکس ہونا چاہیے، لوگ فائلیں بیچ اور خرید رہے ہوتے ہیں،مفتاح اسماعیل نے یہ بھی کہا کہ کنسٹرکشن سیکٹر کو آگے لے کر جانا چاہیے، انڈسٹری لگانے کےلئے مختلف نان آبجیکشن سرٹیفکٹ (این او سی) مانگے جاتے ہیں ،سابق وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ انڈسٹری لگانا مشکل اور رئیل اسٹیٹ میں پیسہ لگانا آسان ہے۔
خیال رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ میں مفتاح اسماعیل 19 اپریل 2022 سے 27 ستمبر 2022 تک وزیر خزانہ رہے ہیں، اس کے بعد موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو یہ منصب سونپ دیا گیا۔