(24 نیوز)سیاسی تجزیہ کاروں کے بقول اِس وقت حکومت تحریک انصاف کی پابندی کو لے کر مخمصے کا شکار ہے،جس کی وجہ تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ میں دوریوں کے ممکنہ خاتمے کا امکان ہے،اور حکومت کیلئے یہ بات کسی صورت قابل قبول نہیں ہوسکتی ،ظاہر ہے تحریک انصاف اب ایسا تاثر دے رہی ہے جس سے یہ لگ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف میں تعلقات بہتری کی طرف جارہےہیں،تحریک انصاف کے رہنماؤں کے رویوں میں اسٹیبلشمنٹ کیلئے لچک بھی نمایاں طور پر نظر آتی ہے،اور تحریک انصاف کو عدالت سے ریلیف پر ریلیف بھی مل رہا ہے،پی ٹی آئی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ عروبہ کومل کی ضمانت بعد از گرفتاری منظور ہوچکی ہے،پھر اِسی طرح پی ٹی آئی کے انٹرنیشنل میڈیا کوآرڈینیٹر احمد وقاص جنجوعہ کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے،اِسی طرح اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن ٹربیونل میں ریٹائرڈ ججز کی تعیناتی سے متعلق الیکشن ترمیمی آرڈیننس کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے،اِس کے علاوہ تحریک انصاف تو یہ دعویٰ بھی کرچکی ہے کہ دسمبر میں اُس کی حکومت بننے جارہی ہے ،اور اب فواد چوہدری بھی بڑے یقین کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ حکومتی وزراء نے بریف کیس تیار کرلئے ہیں کیونکہ حکومت اب جانے والی ہے۔
پروگرام ’10تک ‘کے میزبان ریحان طارق کہتے ہیں کہ اب بظاہر یہ ساری صورتحال حکومت کیلئے الارمنگ نظر آتی ہے،اور واقفان حال کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ حکومت تحریک انصاف پر پابندی لگانے میں ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے، کہ کہیں پاپندی لگانے کا فیصلہ حکومت کے گلے نہ پڑجائے ،اور تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ ایک دوسرے کےقریب نہ آجائیں ، اب یہی وجہ ہے کہ یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ حکومت نے تو تحریک انصاف پر پابندی لگانے کے بڑے اعلانات کئے تھے لیکن پھر حکومت خاموش کیوں ہے،اور اب تو حکومت پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش کر رہی ہے،مصدق ملک تو پی ٹی آئی کو کہہ رہے ہیں کہ آئیے مل کر بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔
اب دیکھا جائے تو حکومت نے خود پی ٹی آئی کیخلاف ریاست مخالف بیانیے کی چارج شیٹ بنائی اور اب حکومت تحریک انصاف کو مذاکرات کی پیشکش کرکے اُس کے ساتھ لچک کا مظاہرہ کر رہی ہے ، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت بیک فُٹ پر چلی گئی ہے،پہلے یہی حکومت الزام لگاتی ہے کہ تحریک انصاف نے اداروں کیخلاف ہرزہ سرائی کرکے نو مئی کا واقعہ رچایا ،پھر اِسی طرح حکومت سائفر بیانیے کو بھی حکومت اداروں کیخلاف ایک سازش قرار دیتی تھی،اور اب مصدق ملک پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش کر رہے ہیں ،جو کہ حکومت کی کمزوری کو ظاہر کر رہا ہے،اور دوسری جانب چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف جو سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلائے گئے اور اب اُنہیں جو قتل کی دھمکیاں دی گئی جس پر حکومت ٹی ایل پی کے ساتھ پی ٹی آئی کو بھی آڑے ہاتھوں لے رہی ہے،حنیف عباسی کہتے ہیں کہ اسرائیل ازل سے ہمارا دشمن ہے آج دیکھیں کہ ایک ملک میں ایک سیاسی جماعت کیلئے قرارداد پاس ہوتی ہے، آج سوشل میڈیا کو استعمال کر کے چیف جسٹس کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور اس میں سب ذاتی مقاصد کے لیے شامل ہورہے ہیں۔
ضرورپڑھیں:چیف جسٹس کو کھلی دھمکی ،راولپنڈی میں صورتحال گھمبیر ،شہبازشریف کو نئی مشکل پڑ گئی
اب حکومت کے نزدیک سوشل میڈیا پر اداروں کیخلاف مہم چلائی جارہی ہے،اور یہ مہم تحریک انصاف کی جانب سے چلائی جارہی ہے،اور آج تحریک انصاف کی عدلیہ کیخلاف مہم پر حکومتی ڈھیل کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب ٹی ایل پی کے نائب ظہیرالحسن شاہ نے چیف جسٹس کو سنگین دھمکیاں دیں،جس پر ح بہرحال کومت نے واضح مؤقف بھی دیا ہے کہ چیف جسٹس کیخلاف مہم چلانے والوں کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا،آج علماء کے ہمراہ وزیر اطلاعات عطا تارڑ اور حنیف عباسی نے میڈیا سے گفتگو کی جس میں اُنہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کیخلاف مہم چلانے والوں کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اب حکومت نے یہ طے کرلیا ہے کہ چیف جسٹس کو دھمکیاں دینے اور اُن کیخلاف مہم چلانے والوں کیخلاف کارروائی ہوگی اور اب چیف جسٹس پاکستان کوقتل کی دھمکی دینے کے الزام میں ٹی ایل پی کے نائب امیر ظہیرالحسن شاہ کو اوکاڑہ سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ظہیرالحسن شاہ اوکاڑہ میں نامعلوم مقام پر چھپے ہوئے تھے۔ پیر ظہیرالحسن شاہ پر تھانہ قلعہ گجر سنگھ میں مقدمہ درج ہوا ہے، مقدمے میں بے بنیاد الزامات لگا کرچیف جسٹس پاکستان کوقتل کی دھمکی دینے کا الزام ہے۔مقدمے میں انسداد دہشتگردی ایکٹ، مذہبی منافرت، فساد پھیلانے، عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی دفعات شامل ہیں۔مقدمے میں اعلیٰ عدلیہ کودھمکی، کارِ سرکار میں مداخلت، قانونی فرائض میں رکاوٹ ڈالنے کی دفعات بھی شامل کی گئیں ہیں۔
ایف آئی آر کے مطابق پریس کلب کے باہر احتجاج سے پیر ظہیر الحسن نے اعلیٰ عدلیہ کیخلاف نفرت پھیلائی، ٹی ایل پی کے نائب امیر سمیت 1500 کارکنوں پر مقدمہ درج کیا گیا،اب سوال یہ ہے کہ اگر حکومت نے چیف جسٹس کیخلاف سوشل میڈیا پر جاری مہم کو پہلے ہی لگام ڈال لیا ہوتا تو شاید آج ٹی ایل پی کے امیر کی جانب سے ایک حاضر سروس چیف جسٹس کو سنگین دھمکیاں نہیں دی جاتی،بلاشبہ یہ ایک خطرناک کھیل عدلیہ کیخلاف کھیلا جارہا ہے،جہاں مذہبی منافرت پھیلا کر چیف جسٹس کیخلاف منفی مہم چلائی جارہی ہے،اور مذہبی جماعتیں اِس پر اپنا الگ الگ سیاسی کارڈ کھیل رہی ہیں جو کہ افسوسناک اور قابل مذمت عمل ہے، خواجہ آصف اور احسن اقبال تو کہہ رہے ہیں کہ مذہب کے نام پر سرٹیفیکیٹ بانٹنے کی اجازت نہیں ملے گی،جو بھی ہوا قانون پوری طرح حرکت میں آئے گا تاکہ کسی کو یہ حرکت دوبارہ کرنے کی جرائت نہ ہوسکے۔
اب جیسا کہ حکومتی نمائندے اِس بات کا دعوی کر رہے ہیں کہ آئندہ کسی کو چیف جسٹس کیخلاف دھمکیاں دینے کی جرائت نہیں ہوگی ہم اُمید کرتے ہیں ایسا ہو لیکن زمینی حقائق یہی ہیں کہ حکومت اداروں کیخلاف مہم چلانے والوں کیخلاف گھیرا تنگ کرنے میں اب تک ناکام ہے اور اب تو حکومت جن کو مہم چلانے کا ذمہ دار سمجھتی ہے اُن کے ساتھ تو مذاکرات کرنے کی بات کر رہی ہے،تاکہ کہیں حکومت کی ڈرائیوینگ سیٹ اِن سے چھوٹ نہ جائے اور کسی اور کے ہاتھ میں نہ آجائے،جبکہ علیمہ خان تو ڈیل کی خبروں کا بھانڈہ پھوڑ رہی ہیں وہ کہہ رہی ہیں کہ ، اب یہ کیسز کررہے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی ڈیل کرے، لیکن بانی پی ٹی آئی ڈیل نہیں کریں گے۔
اب اگر علیمہ خان حقیقت بیان کر رہی ہیں تو اِس کا مطلب پی ٹی آئی ڈیل پر پروپیگینڈا کر رہی ہے ،یا پھر دوسری صورت اِس کی یہ ہوسکتی ہے کہ ممکن ہو کہ تحریک انصاف ایک طرف یہ تاثر دے رہی ہو کہ اُس کی اداروں سے ڈیل ہورہی ہے اور دوسری جانب یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہو کہ اُس کی ڈیل نہیں ہورہی یعنی ممکن ہو کہ تحریک انصاف اِس معاملے پر وکٹوں کی دونوں جانب کھیل رہی ہو۔مزید ڈیکھئے اس ویڈیو میں