وزیر خزانہ کا ریٹیلرز پر ٹیکس لگانے اور  چھوٹے پیمانے کی صنعتوں کو قرضہ دینے کا اعلان

وزیراعظم کے ذہن میں صرف تین چیزیں ہیں، نوجوانوں کو روزگار دینا ہے، مہنگائی کا خاتمہ کرنا ہے اور غریب کو ریلیف کیسے دینا ہے?وفاقی وزیرمصدق ملک

Jul 30, 2024 | 16:42:PM
وزیر خزانہ کا ریٹیلرز پر ٹیکس لگانے اور  چھوٹے پیمانے کی صنعتوں کو قرضہ دینے کا اعلان
کیپشن: File Photo
سورس: 24news.tv
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)وزیر خزانہ کا ریٹیلرز پر ٹیکس لگانے اور  چھوٹے پیمانے کی صنعتوں کو  قرضہ دینے کا اعلان ۔وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ریٹیلرز پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے،  چھوٹےپیمانےکی صنعتوں کو بھی قرضہ دینے کے حولے سے حکمتِ عملی بنائی جارہی ہے۔

 وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا  کراچی چیمبر آف کامرس کے ممبران سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا  کہ ہم ریٹیلرز پر ٹیکس لگائیں گے، ہر شعبے کو ٹیکس نیٹ میں اپنا حصہ ڈالنا پڑے گا، اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو پھر ہم ایسے ہی واپس وہیں تنخواہ دار طبقے کی طرف ہی جاتے رہیں گے, پاکستان کو بیلنس آف پیمنٹ کے ایشو سےنکالنا ہوگا،  ماضی قریب میں ہم ہرچیزٹرائی کرچکےہیں، آئی ٹی کےشعبےمیں پلے بار 3.2 بلین ٖڈٓالرز کی ایکسپورٹ ہوئیں۔

وزیرخزانہ کا گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ  چھوٹے پیمانے کی صنعتوں کو بھی قرضہ دینا ہے،  ملکی برآمدات کو ماہانہ 4 ارب ڈالر تک بڑھاناہوگا، اس بات پر میں پرامید ہوں کہ اسٹیٹ بینک شرح سود بتدریج کم ہوگا، اس وقت شرح سود میں مزید کمی کی گنجائش ہے، بینکوں کو کاشتکاروں اور چھوٹے کاروبار کےلیےقرضے فراہم کرنے  کا کہا ہے، اس وقت شرح سود میں مزید کمی کی گنجائش ہے۔ 

وزیر خزانہ نے کہا کہ  ملک کا قیمتی سرمایہ ریٹیلرز، بلڈرز اور ریئل اسٹیٹ ڈوپلرز ہیں، جبکہ  زراعت وفاقی نہیں بلکہ صوبائی شعبہ ہے،  وزیر اعلیٰ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اتفاق کیا کہ زرعی شعبے سے متعلق قانون سازی کی طرف جائیں گے تا کہ اس شعبے کو بھی ٹکس نیٹ میں لایا جا سکے لیکن یہ بات آپ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں کیونکہ  آپ کے خیال میں  جو  پچھلے 70 سال میں نہیں ہوسکا وہ اب کیسے ہوجائے گا۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ میں اتنا کہنا چاہوں گا کہ جو چیزیں 75 سال سے نہیں ہوئیں اب ہم وہ کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، اب ہم اس سطح پر پہنچ گئے ہیں کہ اگر آپ پر ہی مطلب سیلری کلاس پر ٹیکس بڑھاتے جائیں تو ایک  دو سال تو ہم ایسا کرلیں گےمگر کب تک ہم ایسا کرتے رہیں گے اور ہم آگے کہاں جائیں گے؟

انہوں نے کہا کہ اگر ہم ٹیکس نیٹ کو وسیع نہیں کرتے، اگر ہم ٹیکس نا دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لاتے تو ایسی  بند گلی میں چلے جائیں گے جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ ممکن نہیں ہے، اگر نان فائلرز کے لیے قانون کو نافذ نہیں کریں گے اور سیلز ٹیکس، ٹریک اینڈ ٹریس فراڈ سے متعلق عمل درآمد نہیں ہوسکے گا تو کوئی فائدہ نہیں،  تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہےاور اگر ہم  ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں تو یہ  ہماری طرف سے بھی ناکامی ہے۔

ملک میں ترقی ہوگی تو روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے:مصدق ملک

دوسری جانب  اسلام آبا میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے  وزیرِ پیٹرولیم مصدق ملک  کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے ذہن میں صرف تین چیزیں ہیں، نوجوانوں کو روزگار دینا ہے، مہنگائی کا خاتمہ کرنا ہے اور غریب کو ریلیف کیسے دینا ہے، ہمارے پاس وسائل بہت محدود  ہیں لیکن بہرحال جو لوگ غریب ہیں یا جو صاحب حیثیت نہیں ہیں تو انہیں سرکار ان کا حق کیسے دےاور جو یہ تین چیزں نہ دے سکے اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے،  کسی بھی ملک کو زندہ رہنے کے لیے ایک خواب اور امید  کی ضرورت ہوتی ہے، آپ تاریکی اور غربت میں تو  رہ سکتے ہیں مگر  نا امیدی اور مایوسی میں زندگی بسر نہیں کر سکتے، اگر وہ بچے جو اس ملک کا مستقبل ہیں وہ ناامید ہوجائیں اور  اگر ہم نے ان کا ناامید کردیا تو پھر ہمارا مستقبل کیا ہوگا۔

مصدق ملک نے کہا کہ جب ملک میں ترقی ہوگی تو روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، گزشتہ سال ہماری ترقی کی شرح صفر یا منفی میں تھی، اب ہماری ترقی کی شرح2 سے 4  فیصد تک پہنچ گئی ہے، ملک میں سب سے زیادہ روزگار زراعت کےذریعے ملتا ہے، اس شعبے میں ہماری ترقی کی شرح 19 سال کی بلند ترین سطح  3سے6 فیصد پر رہی ہے۔

وزیر پیٹرولیم نے کہا کہ ہمارے صنعتی شعبے کی ترقی کی شرح 3 سے 8 فیصد رہی، اگرچہ بہت افاقہ نہیں ہوا لیکن حکومتی پالیسیوں اور انتظامی اقدامات کے باعث بہتری آئی ہے,  بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے اس سال 600 ارب روپے رکھے گئے ہیں، یہ فنڈز خاص طور پر گھر چلانے والے خواتین کو ملتے ہیں, ملک کے 86 فیصد گھر 200یونٹ تک سے کم بجلی استعمال کرتے ہیں، ان کے لیے وزیراعظم نے اسکیم بنائی ہے, گزشتہ برس 38 فیصد پر بڑھنے والی مہنگائی کی شرح5  سے 12 فیصد پر آگئی، اب بھی بہت مہنگائی ہے، کھانے پینے کی اشیا کے اندر تو مہنگائی کم ہونی چاہییں، گزشتہ برس 40 فیصد والی مہنگائی اس سال 2 فیصد ہے۔