9 مئی پر یوٹرن قبول نہیں ہوگا
احمد منصور
Stay tuned with 24 News HD Android App
جی ہاں، جب آپ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اطہر من اللہ اور دیگر معزز ججز کی درخواستیں رد کریں گے، ایسے ظاہر کریں گے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، اگر ہوا بھی ہے تو مجھے کوئی پروا نہیں اور یہ سب دیکھنے اور باہر کی دنیا کو بتانے کیلئے کمرہ عدالت میڈیا، وکلاء اور سیاسی شخصیات سے کھچا کھچ بھری ہو گی تو پھر ایسا ہی ہوگا۔
ہم آج یہ برملا کہہ سکتے ہیں کہ 9 مئی واقعات کی سپریم کورٹ میں مذمت نہ کرنا عمران خان کے گلے پڑ گیا ہے اور عمران خان کے ناقابل قبول ہونے اور سیاسی تنہائی کی بڑی وجہ یہ 9 مئی کے واقعات ہی ہیں۔
عمران خان کے جھوٹ سے اپنے پرائے سب تنگ تھے ہی، 9 مئی نے جلتی پر تیل کا کام کیا جس کے بعد گیارہ مئی کو سپریم کورٹ میں جب سربراہ تحریک انصاف کو ’گڈ ٹو سی یو‘ کہا گیا اور حالات سدھارنے و سیاست مزید چمکانے کا بڑا موقع پیش کیا گیا کہ ہلکی سی مذمت ہی کرلیں تاکہ گونگلووں سے مٹی جھاڑی جاسکے لیکن موصوف کہاں سنتے اور سمجھتے ہیں، اس بڑے موقع کو بھی روایتی اکھڑ پن سے ضائع کیا اور سنگین ملکی حالات سے عدم واقفیت کا ڈرامہ کیا۔
ججز کی 9 مئی واقعات کی مذمت کی درخواست بے اعتنائی سے رد کر دی، بار بار اصرار پر بھی عمران خان نے مذمت نہ کی۔ سماعت کے دوران موجود سینئر صحافیوں نے اس سارے مکالمے و ماحول کی من و عن رپورٹنگ کی۔
کمرہ عدالت میں کیا کچھ ہوا، اس کی ایک جھلک تو وہاں موجود سینئر صحافی کی زبانی جان لی۔ بعد کے واقعات نے ثابت کیا سپریم کورٹ کے سامنے عمران خان جھوٹ بولنے سے بھی باز نہ آئے۔
سپریم کورٹ میں سربراہ تحریک انصاف نے ایک ہی رٹ لگائے رکھی، مجھے تو کچھ پتہ ہی نہیں۔ لیکن فوراً ہی بعد وہ گفتگو سامنے آگئی جو گرفتاری کے بعد نیب حراست کے دوران مسرت جمشید چیمہ کے ساتھ فرما رہے تھے۔
اس گفتگو نے بھانڈا پھوڑا۔ آڈیو لیک سے ثابت ہوا، عمران خان حالات سے بے خبر نہ تھے، باہر کی دنیا سے رابطے میں تھے۔
9 مئی کے پُرتشدد واقعات سے عدالت میں لاعلمی ظاہر کرنے والے عمران خان کی دوران حراست آڈیو لیک پھر سے سنیے۔ جو لیڈر اعلیٰ عدلیہ کے سامنے بھی ڈھٹائی سے جھوٹ بول سکتا ہو، اس کی باتوں پر کون اعتبار کرے؟ 9 مئی واقعات کی منصوبہ بندی کرنے والے نے اپنے کارکنوں، رہنماؤں کو آگے لگا کر خود لاتعلقی ظاہر کی۔ اسی جھوٹ، ضد، پرواہ نہ کرنے والے رویے سے پی ٹی آئی کی صف اول کی قیادت دلبرداشتہ ہوئی۔ عمران خان اب 9 مئی کی مذمت کرے نہ کرے، اس کی اہمیت نہیں۔ سپریم کورٹ میں اپنایا مؤقف گلے پڑ چکا۔
سوال یہ پیدا ہوتا کہ عمران خان کی شخصیت میں ضد، انا، کسی کی پرواہ نہ کرنا، خود پسندی، جھوٹ، یوٹرن جیسی خاصیتیں تو شروع سے ہیں تو پھر آج قطع تعلق کرنے والوں نے پہلے یہ فیصلہ کیوں نہیں کیا۔
تو جناب اس کا صاف، سیدھا اور سادا جواب ہے، ماضی میں عمران خان اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، اداروں کا خوف دکھا کر کسی کو چیں بھی نہیں کرنے دیتا تھا۔ آج جب یہ سارے بھرم ٹوٹ چکے تو عمران خان سے جان چھڑانے والوں کو اس کی خاطر جیلیں کاٹنے کی کیا ضرورت۔ کمبل سے جان چھڑانے کا اس سے نادر موقع انہیں کب ملتا۔ اسی لیے اس کے دیرینہ ساتھی آج عمران خان کے سایے سے بھی دور بھاگنے کی لائن بنا کر ایک دوسرے سے سبقت لے جا نے کی دوڑ میں ہیں۔
کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان آج جس تنہائی کا شکار ہوتے جارہے ہیں اسکی بنیاد انہوں نے سالہا سال سے خود رکھی ہے۔