مرزا غالب کے محلے میں دودھ کے آنسو!

سجاد اظہر پیرزادہ

May 30, 2024 | 15:42:PM
مرزا غالب کے محلے میں دودھ کے آنسو!
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: 24news.tv
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

اُس نے تشنہ لبوں کی سہولت کی خاطر' اپنے گھر کا دروازہ تنگ کیا۔۔۔اور پھر اپنا دامن بھی چھوٹی سی پتلی گلی کی صورت میں سکیڑ کر پیاس بجھانے کاراستہ بنادیا۔۔۔دیکھنے میں تو فقط ایک ہاتھ جتنا۔۔۔۔مگر دل اِس قدر بڑا ایک گلاس کا؟۔۔۔۔پانی کا ایک بے جان گلاس اور سب انسانوں پر یوں ایک جیسا مہربان؟۔۔ اتنا انصاف پسند؟۔۔ ایسا غیرمتعصب؟۔ اس قدر جمہور پسند؟۔۔۔یہ فقط کوئی گلاس ہے یا پھر کسی ماں جیسی ریاست میں اُس کے جمہوری نظام حکومت کی ایک مکمل تعریف؟
جب جب اسے سوچا ہے دل تھام لیا میں نے۔۔۔کہ خود انسان کے ہاتھوں سے انسانوں پہ کیا گزری۔

سامنے میز پر پڑے پانی کے گلاس سے میں نے پوچھا۔" اتنی بڑی حیثیت رکھتے ہوئے بھی چھوٹی سی جگہ میں سمائے رہتے ہو، خود تنگی برداشت کرکے دوسروں کی سانسیں بحال رکھتے ہو، اس کے بدلے تمہیں ہم انسانوں سے کیا مل جاتا ہے؟ بولا۔۔ میری وجہ سے کسی پیاسے کی پیاس بجھ جائے۔کسی کو سکھ چین مل جائے، اس کے سوا مجھے اور کیا چاہیے؟۔

میں نے ایسی انمول گفتگو سن کر جو کبھی انسان کا خاصہ،ہمارے بزرگوں کا اوڑھنا بچھونا تھی، پانی کے اس گلاس کا شکریہ ادا کرنا چاہا تو اچانک محلہ بلی ماراں یاد آگیا۔۔۔دہلی میں غالب کے اِس محلے کے باہر پرانی دہلی کے مشہور ربڑی والے دودھ سے بھرے گلاس درخت سے جھڑتے پتوں کی طرح گند والی ٹوکری میں گر رہے تھے۔۔۔میں نے اپنے اردگرد نظر دوڑائی تو انسان کی طرح کے نظر آتے کئی انسان دکھائی دیے۔۔۔۔جو اپنا مطلب پورا ہونے کے بعد مٹی سے بنے اپنے محسن گلاسوں کو بڑی ہی بے مروتی کیساتھ ڈسٹ بن میں پھینک رہے تھے۔۔۔میری نظر نیچے پڑی تو وہ ایک دوسرے سے ٹکرا کر مٹی مٹی ہوچکے تھے۔۔۔اب گند والی ٹوکری میں فقط آنسو ہی آنسو تھے۔۔۔ٹوٹ پھوٹ چکے گلاسوں سے بہتے دودھ کے آنسو۔۔۔۔

ضرورپڑھیں:گھڑمس

ربڑی والے دودھ سے بھرے یہ گلاس' جو ایک لمحہ قبل تک انسان کیلئے راحت کا درجہ رکھتے تھے۔۔۔اب استعمال ہونے کے بعد اوندھے منہ کوڑے کی ٹوکری میں پڑے تھے۔۔۔کسی ٹوٹے ہوئے دل کی طرح کرچی کرچی۔۔۔۔اِن ٹوٹے پھوٹے زخم خوردہ گلاسوں کے کونے کھدروں سے بہتے دودھ کے آنسو یہ راز اگل رہے تھے کہ انسان کو اپنے پڑوسیوں،دوستوں، عزیزوں، قرابت داروں اور اپنے محسنوں کیساتھ ایسے مطلبی سلوک کے سبب ہی میرا ایک خالص گلاس بھی میسر نہیں۔۔۔میں تو اخلاص کا پیکر ہوں۔۔۔اخلاص والوں کے نصیب میں لکھا ہوں۔۔۔بھلا بے قدروں سے میرا کیا تعلق؟

میں گلاس کے ٹوٹنے پر دودھ کے آنسو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ ایک عام سا گلاس بھی انسانیت کیساتھ اتنا مخلص ہوتا ہے کہ بغیر کسی کی سوچ،عقیدہ دیکھے سب انسانوں کو زندگی دیتا ہے۔۔۔۔۔۔مگر ہم انسان جسے اللہ نے عقل دی، اشرف المخلوقات بنایا، ایک دوسرے سے حسد،لالچ،تعصب،دلوں میں میل رکھتے ہیں۔ ایک باپ کی اولاد ہونے کے باوجود ذات پات،اونچ نیچ،خیال و نظریہ و عقیدہ کے نام پر کدورت پھیلاتے ہیں۔۔۔اسی لیے ہم انسانوں کی موت پر بہنے والے آنسو بھی محض پانی کے آنسو ہی ثابت ہوتے ہیں۔۔۔سرگودھا اور سرگودھا جیسے واقعات کو آئین و قانون کی حکمرانی سے لگام ڈالنے کی بجائے، مٹی ڈال کر اس پر بہائے جانے والے پانی کے آنسوئوں کی طرح کے آنسو۔۔۔اخلاص سے خالی اعمال والوں کے اخلاص سے خالی آنسو۔۔۔نتیجہ؟ہر طرف قتل و غارت۔۔عدم برداشت۔۔۔بھوک۔۔ننگ۔۔بےروزگاری۔۔۔ڈاکے۔۔چوریاں۔۔اغوا برائے تاوان۔۔۔

ضروری نوٹ :بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر 

سجاد پیرزادہ لاہور میں مقیم سینئر صحافی، محقق اور تجزیہ نگار ہیں۔ چین اور بھارت میں بھی صحافتی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ انٹرنیشنل میڈیا فورم فار پیس اینڈ ہارمونی کے چیئرمین بھی ہیں۔ ان سے sajjadpeerzada1@hotmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔