عمران خان مائنس ؟

اظہر تھراج 

Nov 30, 2023 | 12:04:PM

Azhar Thiraj

جو ظاہر میں ہوتا ہے ضروری نہیں کہ پردے کے پیچھے بھی وہی ہو رہا ہو، جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں، جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں۔ اسی فارمولے کی بنیاد پر کچھ نادیدہ قوتیں کام کرتی ہیں، ریاستی امور، نظام حکومت چلاتی ہیں۔ پاکستان کے ”معصوم لوگ“ ظاہری تبدیلیوں پر ہی ”ایمان“ لے آتے ہیں۔ کبھی کسی آمر کو اپنا مسیحا مان لیتے ہیں تو کبھی کسی جاگیر دار کو اپنے درد کا مداوا سمجھ لیتے ہیں، کبھی کسی ٹیکنو کریٹ کی بات پر کان دھرتے ہیں تو کبھی کسی کھلاڑی کے نعرے لگاتے لگاتے ہلکان ہوئے جاتے ہیں، تبدیلی کے اصل کرداروں کے بارے میں تو کبھی سوچتے ہی نہیں۔

جب سے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کا حکم دیا ہے تب سے ایک طوفان برپا ہے کہ’عمران خان مائنس ہوگئے‘۔اس بیانیے کو تقویت تب ملی جب خود عمران خان نے اپنے آپ کو چیئرمین شپ کے الیکشن سے دستبردار کرتے ہوئے اپنے وکیل گوہر خان کو ’عبوری چیئرمین‘مقرر کیا ہے،جو نہی گوہر خان کا نام سامنے آیا ٹوٹی پھوٹی پی ٹی آئی میں اقتدار کی جنگ شروع ہوگئی ہے۔ایک طرف شیر افضل مروت ہیں تو دوسری طرف شعیب  شاہین  ،عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بیگم اوربہنوں میں الگ سے جنگ چل رہی ہے۔ پی ٹی آئی میں جو کھچڑی پک رہی ہے اس سے کیا برآمد ہوگا؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا عمران خان مائنس ہوگئے؟

 جو کہتے تھے نواز شریف کی سیاست ختم ہو گئی، وہ غلط ثابت ہوئے، اور جو اب یہ سوچ رہے ہیں کہ عمران خان ماضی کا حصہ بن جائیں گے تو امید ہے وہ بھی غلط ثابت ہوں گے سوال یہ ہے کیا عمران خان کو سیاسی میدان سے الگ کیا جاسکتا ہے؟

ضرور پڑھیں:نوازشریف ایک بار پھر وزیراعظم بنیں گے؟

عمران خان کا حشر جی ٹی روڈ بیانیے جیسا ہوتا تو صورتحال مختلف ہوتی۔ اس وقت معاملات سکرپٹ کے خلاف ہیں۔ عوام مان جائے کہ عمران خان چلے ہوئے کارتوس ہیں تو پھر کوئی مسئلہ نہیں۔ عوام تو جوق در جوق عمران خان کے  نام کے ساتھ جڑتے جارہے ہیں۔جس سے پوچھو کہتا ہے ’میرا ووٹ عمران خان کا‘۔میڈیا نے آزاد سروے بھی کرائے،الیکشن بھی کروائے لیکن ووٹ نکلا تو صرف عمران خان کا ۔

دیکھا جائے تو  کوئی بھی مائنس ون نہیں ہوسکا، ذوالفقار بھٹو کو مائنس نہیں کیا جا سکا، نواز شریف کو حکومت سے نکالا گیا لیکن سیاست عوام میں سے مائنس نہیں کیا جا سکا، پانامہ میں 460 افراد کا نام آیا تھا لیکن صرف نو از شریف کو کیوں سزا دی گئی،جس نواز شریف کیخلاف ثبوتوں کے صندوق بھر بھر کر عدالت لائے جاتے تھے وہی نواز شریف اسی عدالت سے بری ہوگئے۔   بھٹو لاکھوں دلوں میں زندہ ہے، نواز شریف کو سیاسی کھیل سے نہیں نکالا جا سکا، وہ چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔کیا عمران خان کو سیاست سے نکالا جا سکے گا؟

اگر کسی کی مقبول سپورٹ ہو، اسے آپ استعمال کر سکتے ہوں تو ایسے لیڈر کو سیاست سے بے دخل کرنا مشکل ہوتا ہے، سٹیٹ کے اداروں کے خیالات بھی بدل جاتے ہیں، ایک یہ چیز ضرور ہے کہ ریاستی اداروں، قوت کو استعمال کر کے سیاسی مخالفین کو تباہ ضرور کیا جاسکتا ہے، ان کی ساکھ کو خراب کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ عمران خان کیخلاف ہورہا ہے۔

فوری طور پر عمران خان منظر سے آؤٹ نظر آتے ہیں ،ان کی پارٹی کو کوئی بھی سنبھالے لیکن ووٹ عمران خان کا ہے۔عمران خان نہیں ہوں گے تو پی ٹی آئی کو ووٹ بھی نہیں پڑے گا ۔آنیوالے جمہوری نظام میں بظاہر کچھ عرصے تک عمران خان’مائنس‘ہوچکے ۔سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے کہتے ہیں کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے نکلنے والے پی ٹی آئی کی باگ دوڑ سنبھال لیں گے ۔

 نوٹ : تحریر بلاگر کے ذاتی خیالات ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ادارہ

مزیدخبریں