(24 نیوز) نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسسز کے طلباء کے ساتھ ایک خصوصی نشست کی جس میں طلباء کی جانب سے سوالات کا سلسلہ رکھا گیا۔
اس سیشن کےدوران ایک طالبعلم کا سوال سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے جس میں وہ نگراں وزیر اعظم سے 50 منٹ تاخیر سے آنے پر شکوہ کر رہا ہے۔ طالبعلم نے مزید کہا کہ وزیراعظم کیلئے یہاں طلباء اور اساتذہ انتظار میں تھے لیکن وہ 50 منٹ تاخیر سے اس تقریب میں پہنچے۔
وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لمز یونیورسٹی کا طالب علم نگراں وزیر اعظم سے کہتا ہے کہ یہاں طالبعلم اپنی کلاسز چھوڑ کر 50 منٹ سے آ پ کا انتظار کر رہے ہیں۔ کیا آپکو علم اور طالبلعم کے وقت کی قدر نہیں ہے؟۔ میں اس بات پر شرمندہ ہوں کہ بے شک میرے ملک کے وزیر اعظم کو علم کی عزت نہیں ہے یا شاید مجھے لگ رہا ہے کہ میرے وزیر اعظم کو علم کی عزت کا پتہ نہیں ہے۔
جواب میں نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ لگتا ہے آپ حکومت سے بہت مایوس ہیں لیکن ہم آپ سے مایوس نہیں ہیں۔ میں 50 منٹ اس لیے تاخیر سے آیا کہ میں کابینہ کے اجلاس کا آغاز کر چکا تھا، میں چاہتا ہوں کہ اللہ پاک آپکو بھی کابینہ میں شامل ہونے کا موقع دیں تاکہ آپکو بھی اندازہ ہو کہ جو فیصلے ہوتے ہیں اس کے دور رس نتائج آپکے فائدے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔ اگرمجھے پتہ ہوتا کہ لمز میں میرا چندا ناراض ہو رہا ہے تو میں کابینہ اجلاس میں فالتو 35 یا 40 منٹ نہ لگاتا۔
سیشن میں موجود ایک طالبعلم نے کہا کہ نگران حکومت کا حصہ ہونے کے ناطے 90 روز میں پنجاب اور خیبرپختنخوا میں انتخابات کروانا آپ کی ذمہ داری تھی جسے بدقسمتی سے ادا نہیں کیا گیا اور اسے آئین کی خلاف ورزی قرار دیا۔
اس کے جواب میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ اگر میرا اختیار ہوتا تو الیکشن کا اعلان کردیتا، انتخابات کی تاریخ کا آئینی اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے اور وہ ہی اس کا اعلان کرے گا۔
انوار الحق کاکڑ کا طالب علم کے سوال پر مزید کہنا تھا کہ نگراں حکومت آئینی طریقہ کار سے قائم ہوئی ہے، سابقہ قومی اسمبلی میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف نے آئینی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے میری بطور نگراں وزیراعظم نامزدگی کی، پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کیا جس کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا مینڈیٹ دیا گیا۔ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا نگراں حکومت یا وزیراعظم کا نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کا مینڈیٹ ہے، اگر آئینی طور پر مجھے یہ مینڈیٹ دیا گیا ہوتا ہے تو میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیتا۔
نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے مزید کہا کہ نگران حکومت انتخابات کے پُرامن انعقاد کیلئے الیکشن کمیشن کو مالی اور سیکیورٹی معاونت فراہم کرے گی۔
پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکی تارکین اور افغانیوں کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیراعظم انوارالحق کا کہنا تھا کہ حکومت کی پالیسی اور متعلقہ قوانین کے مطابق تمام غیرقانونی تارکین وطن اور غیرملکیوں کو پاکستان کی سرزمین سے واپس بھیجا جارہا ہے، یہ پالیسی پاکستان میں مقیم صرف غیرقانونی افغان شہریوں کیلئے مخصوص نہیں بلکہ یہ ان تمام غیرملکیوں پر لاگو ہوتی ہے جن کے پاس قانونی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر نہیں کیا جا رہا بلکہ غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو واپس بھیجا جا رہا ہے کیونکہ دنیا بھرکا یہ اصول ہے کہ کوئی بھی ملک بغیر دستاویزات اور پاسپورٹ کے کسی غیرملکی کو اپنے ملک میں رہنے کی اجازت نہیں دیتا۔
وزیر اعظم نے واضح کیا کہ پاکستان نے چالیس سال تقریبا 50 ملین افغان شہریوں کی میزبانی کی۔ دس لاکھ غیرملکیوں کی شناخت ہوئی ہے جو قانونی اور مستند دستاویزات کے بغیر پاکستان میں رہ رہے ہیں، ایسے تمام غیرملکیوں کو واپس ان کے ملک جانے کیلئے حوصلہ افزائی کی جارہی ہے، اگر وہ درکار قانونی دستاویزات اور مستند ویزے کے ساتھ پاکستان واپس آتے ہیں تو ان پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔
نگران وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ غیرقانونی غیرملکیوں کی واپسی کا فیصلہ قومی سطح پر کیا گیا ہے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت شامل تھی کیونکہ غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکی مختلف قسم کی جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے، جس کا ادراک سب کو تھا مگر پہلے اس بارے میں نہیں سوچا گیا۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ متعدد دہشتگردانہ واقعات میں مخصوص گروہ ملوث ہیں، بعض گروپوں کا غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونا مسئلہ کا حصہ ہے، وزیراعظم نے خیبر پختونخوا میں مسجد میں خودکش حملہ کا حوالہ دیا جس کے خود کش بمبار کی شناخت ڈی این اے سے افغان شہری کے طور پر ہوئی تھی۔
کوئٹہ سے کچلاک روڈ کے حوالے سے ایک طالبعلم کے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ میں پورے ملک کا وزیراعظم ہوں، کسی ایک صوبے یا مخصوص علاقے کا نہیں، مجھے وفاق کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے تمام صوبوں اور پورے ملک کا سوچنا پڑتا ہے اور یہ ہر وزیراعظم کو کرنا پڑتا ہے جو اس کے فرائض میں شامل ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ میں دوسرے صوبوں کے فنڈز بلوچستان یا کسی مخصوص علاقے پر لگا دوں۔