فوزیہ عظیم سے قندیل بلوچ تک کا سفر
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز ) پاکستان کی پہلی سوشل میڈیا سٹار قندیل بلوچ کے قتل نے ملک میں فوری طور پر میڈیا سٹارز پر خوف طاری کردیا اور دنیا بھر میں سرخیاں بن گئیں۔ اس کے بھائی کو اب اسے قتل کرنے کی سزا سنائی گئی لیکن اس سانحے کی جڑیں پاکستان میں اس کے طرز زندگی کے فیصلے اور طعنوں سے بھی معلوم کی جا سکتی ہیں ۔
ملک کی پہلی مشہور شخصیت سوشل میڈیا سٹار قندیل بلوچ کو جولائی 2016 میں اس کے بھائی نے 26 سال کی عمر میں قتل کر دیا تھا۔ اس کے بھائی کے مطابق یہ ایک نام نہاد غیرت کے نام پر قتل تھا، اسے لگا کہ وہ جو ویڈیوز اور تصاویر آن لائن پوسٹ کر رہی تھیں وہ سامنے آنے سے ان کے خاندان کی بے عزتی ہوئی ہے ۔ملتان میں ان کے گھر میں اس نے اپنی بہن کا گلا گھونٹ کر قتل کرنے کے بعد جب ان کے والدین سو رہے تھے، وسیم اپنے آبائی گاؤں شاہ صدر دین واپس چلا گیا۔ جو دو گھنٹے کی مسافت پر ہے، جہاں اس نے چھپنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
قتل سے چند روز قبل ایک اخبار نے قندیل کے پاسپورٹ کی تصاویر شائع کی تھیں جس سے یہ انکشاف ہوا تھا کہ اس کا اصل نام قندیل نہیں بلکہ فوزیہ عظیم ہے۔قندیل بلوچ کے فینز کو معلوم ہوا کہ وہ پنجاب کے ایک گاؤں سےہیں کچے فرش والے گھر سے آئی ہے اور وہ ایک امیر زمیندار کی بیٹی نہیں تھی جیسا کہ انہوں نے دعوی کر رکھا تھا ۔مفتی قوی اور قندیل بلوچ کی ملاقات بھی عوام کی تنقید کا نشانہ بنی رہی ۔ قتل کرنے والوں کے ناموں میں مفتی قوی کا نام بھی سامل کیا گیا مگر جمعہ کے روز، مفتی قوی کو ان کے قتل میں کوئی کردار ادا کرنے سے بری کر دیا گیا تھا اور جب وہ عدالت سے باہر نکلے تو ان لوگوں نے ان پر گلاب کی پنکھڑیوں کی بارش کر دی۔
تاہم، بہت سے دوسرے لوگوں نے سوشل میڈیا پر عدالت کے فیصلے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔پولیس اس بات کی تحقیقات کر رہی تھی کہ مفتی قوی نے براہ راست یا بالواسطہ اپنے حامیوں کے ذریعے قندیل کے بھائی کو قتل کرنے کی ترغیب دی۔جمعہ کو عدالت کے باہر نامہ نگاروں کو کچلنے میں، مفتی قوی نے کہا کہ وہ ثابت ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے حامیوں کی دعائیں پوری ہو گئی ہیں۔ "یہ انصاف کا، فتح کا دن ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ قندیل بلوچ کا بھائی بھی بعد میں بری ہوگیا اور ثابت یہ ہوا کہ پاکستان میں انصاف کا نظام کمزور تھا اور ہمیشہ رہے گا ۔