عظمیٰ بخاری فیک ویڈیوکیس،چیف جسٹس نے تفتیش کیلئے 11 اکتوبر تک کی مہلت دے دی

Sep 30, 2024 | 11:24:AM
عظمیٰ بخاری فیک ویڈیوکیس،چیف جسٹس نے تفتیش کیلئے 11 اکتوبر تک کی مہلت دے دی
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ملک اشرف )وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کی فیک ویڈیو کیخلاف درخواست  پر سماعت ہوئی ، عدالت نے ڈی ایف آئی اے کو تفتیش مکمل کرنے کے لئے 11 اکتوبر تک کی مہلت دے دی.

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عالیہ نیلم نے صوبائی وزیر عظمی بخاری کی درخواست پر سماعت کی۔عدالت میں  ڈی جی ایف آئی اے احمد اسحاق ,ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ودیگر افسران پیش ہوئے، دوران سماعت صوبائی وزیر عظمی بخاری بھی کمرہ عدالت میں موجود تھیں۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس عالیہ نیلم نے پوچھا  کیا آگیے ہیں ، ڈی جی ایف آئی اے صاحب ۔ جس پر ڈپٹی آٹارنی جنرل نے جواب دیا  جی آگئے ہیں۔ چیف جسٹس  نے ڈی جی ایف آئی اے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ  آپ نے دیکھا ہے کہ اس کیس کو   اپنے تفتیشی کی رپورٹ کو بھی دیکھا ہے ۔ ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ ان کا کنڈیکٹ درست نہیں تھا دو اسٹنٹ ڈائریکٹر کو کلوز کرکے ان کے خلاف انکوائری شروع کردی ہے،ان اسٹنٹ ڈائریکٹرز کے خلاف انکوائری مکمل کرکے ان کو مثال بنائیں گے،،جو گریڈ سترہ سے اوپر ہیں ، ان کے خلاف کاروائی کا اختیار وزارت داخلہ کے پاس ہے۔

 چیف جسٹس  نے کہا کہ  گزشتہ سماعتوں سے عدالت نے محسوس کیا ہے کہ ایف آئی اے کے پاس تمام جگہوں پر جانے کا اختیار نہیں۔ ڈی جی ایف آئی اے نے اس پر کہا کہ  ایف آئی اے کے پاس افرادی قوت نہیں ، اس کو کارروائی کے لئے مقامی پولیس کی مدد چاہیے ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ  کیا اسلام آباد میں بھی آپ پولیس کی مدد لی تھی،ڈی جی ایف آئی اے نے جواب دیا  جی مدد لی تھی ، پارلیمنٹ کی وجہ سے شائد تھے اس لئے نہیں کی گئی۔چیف جسٹس  نے ڈی جی ایف آئی سے مکالمہ کرتے کہا کہ آپ نے پھر وہاں ریڈ کیوں نہیں کیا ، ڈی جی ایف آئی نے جواب دیا کہ  متعلقہ افسر نے شائد ریڈ کرنا مناسب نہ سمجھا ہو ، کیوں کہ وہاں پارلیمنٹرین موجود تھے ۔

چیف جسٹس عالیہ نیلم نے اس پر کہا کہ  آپ کس قانون کے تحت روزنامہ نہیں لکھتے، ڈی جی ایف آئی اے احمد اسحاق نے  جواب دیا کہ ہمارے ڈیپارٹمنٹ پرفیکٹ نہیں ہے،  چیف جسٹس نےکہاکہ کیا مطلب آپ کا ڈیپارٹمنٹ پرفیکٹ نہیں ، آپ لوگوں کے حقوقِ کے کسٹوڈین ہیں۔ ڈی جی ایف آئی اے نےکہا کہ  ہمارے سائبر کرائم یونٹ میں افسران و ملازمین کنٹریکٹ پر ہیں۔

چیف جسٹس  نے  ڈی جی ایف آئی سے مکالمہ کرتے ہوئے  کہا کہ  کب تک لوگوں کی زندگیاں داؤ پر لگی رہیں گے ،چیف جسٹس کا ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا لاء افسر صاحب تو کچھ پڑھ کر پھوکیں مار رہے ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، جس پر  چیف جسٹس عالیہ نیلم نے وفاق کے لاء افسر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ  پھونکیں ماررہے ہیں لیکن یہاں صرف قانون کی بات ہوگی۔

یہاں صرف قانون کی بات ہوگی ،پھونکوں کا کوئی اثر نہیں ہونا ، چیف جسٹس کے ریمارکس

 چیف جسٹس  نے ڈی جی ایف آئی اے سےمکالمہ کیا کہ کیا پراگرس ہے ، اس کیس کی فائل  ایف آئی اے دروازے تک پہنچ کر ناکام واپس آ گئی ہے،ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ  جے آئی ٹی کا لیول بھی بڑھا رہے ہیں ، کسی سنئیر افسر کو اس میں شامل کریں گے۔

 چیف جسٹس  نے ڈی جی ایف آئی اے مکالمہ کیا کہ میرٹ پر تفتیش کریں ، تاکہ عدالت اس کیس کا فیصلہ کرسکے۔

جس کے بعد ڈی جی ایف آئی اے احمد اسحاق  نے عدالت سے استدعا کی کہ  دو تین ہفتے کی مہلت  دے دیں ،  چیف جسٹس  نے ڈی جی ایف آئی اے سے مکالمہ کیا کہ  آپ کو معلوم ہے ، دو تین ہفتوں میں کتنے دن اور کتنے گھنٹے ہوتے ہیں ،آپ لکھ کر لائے ہیں ، کہ آپ کو مہلت چائیے ، چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ کام کرنے بیٹھیں تو چار روز کا کام ہے تفتش کے لیے، نہ چاہیں تو چار ماہ بھی کم ہیں۔

وفاقی حکومت کے لاء افسر نے تفتیش کی پیش رفت کے حوالے سے رپورٹ پڑھ کر سنائی جس کے بعد  عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کی استدعا پر کیس کی سماعت 11, اکتوبر تک ملتوی کردی۔

دوسری جانب عظمیٰ بخاری نے لاہور ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہو ئے کہاکہ  مجھےپھر10دن کی تاریخ ملی ہے،دوبارہ حاضرہوں گی، سوشل میڈیاکےذریعےہونیوالےجرائم کو  ختم ہونا ہوگا،یہ فتنہ باہرسےآپریٹ ہوتاہے،پاکستان میں سوشل میڈیا کےقوانین کوسمجھنامشکل کام نہیں۔

انہوں نے کہا کہ  آزادی اظہارکامطلب یہ نہیں کہ کچھ بھی کہاجائے،حکومت کاسوشل میڈیاسےمتعلق کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔