توہین عدالت کیس میں عمران خان کو ایک اور موقع مل گیا
Stay tuned with 24 News HD Android App
(ویب ڈیسک) اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہین عدالت کیس میں عمران خان کو جواب جمع کرانے کے لیے ایک اور مہلت دے دی۔ عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کو 7 دن میں دوبارہ تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سوچ لیں اور اپنا جواب جمع کروا دیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حامد خان صاحب آپ کا جواب پڑھا، مجھے توقع نہیں تھی کہ یہ ہوگا، جس حالت میں ماتحت عدلیہ کام کر رہی ہے ان کا اعتماد بڑھانے کیلئے اس عدالت نے بہت کام کیا، اس عدالت کو توقع تھی کہ آپ اس عدالت میں پیش ہونے سے پہلے وہاں سے ہو کر آتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ماتحت عدالتیں عام آدمی کی عدالتیں ہیں، عمران خان کے تحریری جواب سے مجھے ذاتی طور پر افسوس ہوا، میں توقع کرتا تھا کہ عمران خان کہیں گے کہ ان سے غلطی ہوگئی، عمران خان اگر ماتحت عدالت جا کر کہہ دیں کہ انہیں ان پر اعتماد ہے تو ان کا اعتماد بہت اوپر چلا جائے گا، زبان سے کہے الفاظ واپس نہیں ہو سکتے، عمران خان کے کہے گئے الفاظ بہت محتاط ہونے چاہیئں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اداروں کے خلاف بیان دینے پر آرڈیننس کے ذریعے سزائیں رکھ دی گئیں تھیں، ان مقدمات میں چھ چھ ماہ ضمانت نہیں مل سکتی تھی، اس عدالت نے آپ کی حکومت کا وہ آرڈیننس کالعدم قرار دیا، اس وقت اس عدالت کے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم چلائی گئی۔
عمران خان اسلام آباد ہائیکورٹ کے کمرہ عدالت میں پہنچ گئے
— Amir Raza Khan (@AmirRazakhan042) August 31, 2022
ہائیکورٹ کا پانچ رکنی لارجر بنچ کچھ دیر بعد توہین عدالت کیس کی سماعت کریگا
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ بنچ کی سربراہی کرینگے#عمران_خان_ٹیلی_تھون_مہم pic.twitter.com/Dpnft1H3PU
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی رہنماؤں کے اس وقت کے دیئے گئے بیانات پڑھ لیں، اس عدالت نے اس وقت بھی تنقید کی پرواہ نہیں کی، عمران خان نے بڑے اچھے انداز میں جلسے سے خطاب میں پوچھا عدالت رات 12 بجے کیوں کھلی، اس عدالت نے عمران خان کی اس تقریر پر بھی کچھ نہیں کہا، عدالتیں جواب نہیں دیتیں، یہ عدالت ہمیشہ 24 گھنٹے کیلئے دستیاب ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت کے ذہن میں تھا جو 12 اکتوبر 1999 کو ہوا دوبارہ نہ ہو، تو آج بتا دیتے ہیں کہ عدالت رات کو کیوں کھلی تھی، اس عدالت کے ذہن میں تھا کہ جو 12 اکتوبرکو ہوا دوبارہ نہ ہو، اس عدالت کے کسی جج پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا، یہاں کوئی اگر ایک لاکھ آدمی بھی لے آئے تو اس عدالت پر اثر نہیں ہوتا۔ عمران خان کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے جوڈیشل کمپلیکس بنایا۔
عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ آمد کے موقع پر پولیس کی جانب سے سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے، ہائی کورٹ کی طرف آنے والے تمام راستوں کو خاردار تاریں لگا کر سیل کیا گیا۔
صرف لسٹ میں موجود صحافی اور وکلاء کو ہائیکورٹ آنے کی اجازت دی گئی جبکہ غیر متعلقہ افراد اور دیگر سائلین کا داخلہ ممنوع رہا۔ سیکورٹی کے سخت انتظامات کی وجہ سے کارکنان ہائی کورٹ نہ پہنچ سکے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ عدالت میں اپنا جواب جمع کروایا ہے، اتنی سکیورٹی لگائی ہوئی ہے، اتنا خوف کیا ہے، اس بات پر حیران ہوں۔