عظیم صوفی بزرگ شاہ عبدالطیف بھٹائی کا عرس،سندھ بھر میں کل عام تعطیل ہوگی
Stay tuned with 24 News HD Android App
(محمد افتخار میمن) عظیم صوفی بزرگ ہستی حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی کے 1445 ویں عرس کے موقع پر سندھ بھر میں کل عام تعطیل ہوگی۔ عرس مبارک کی 3 روزہ تقریبات کا آغاز سرکاری طور پر یکم ستمبر سے ہوگا۔
نگران سندھ سرکار نے صوبے بھر میں یکم ستمبر (جمعہ) کو عام تعطیل کااعلان کیا ہے۔محکمہ سروسز جنرل ایڈمنسٹریشن و کو آرڈی نیشن نے نوٹی فکیشن جاری کردیا ہے۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق جمعہ کے روز تمام سرکاری، نیم سرکاری دفاتر بند رہیں گے، بلدیاتی کاؤنسلز میں بھی عام تعطیل ہو گی۔
برصغیر کے عظیم صوفی بزرگ ،شاعراور سندہ دھرتی ماں کے رہبر حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کا 280 واں تین روزہ عرس مبارک بھٹ شاہ میں منایا جارہا ہے۔ سندہ دھرتی ماں اس اعزاز کی حامل ہے کہ یہ دھرتی ایسے مرد قلندر وں کا مسکن بنی، جنہوں نے اپنی گفتار، کردار اور عمل کے ذریعے تطہیری عمل پروان چڑھایا، اِن ہستیوں کے اعلیٰ کردار سے معاشرہ امن، سکون اورسلامتی کا گہوارہ بن گیا۔ اِن بُزرگوں میں ایک نام صوفی شاعر حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کا ہے۔ جنہوں نے اپنے کلام کے توسط سے محبت، امن و یکجہتی کا پیغام عام کیا۔ شاہ کے پیغام سے دہشتگردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ کیاجاسکتا ہے۔
برصغیر کے عظیم صوفی بزرگ اور شاعروں کے سرتاج حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کی ولادت 1689ء، 1101ہجری میں موجودہ ضلع مٹیاری کی تحصیل ہالا کے شہر بھٹ شاہ میں ہوئی۔
شاہ عبد الطیف بھٹائی کو "سات سورمیون کا شاعر" بھی کہا جاتا ہے۔ شاہ عبد اللطیف نے ابتدائی تعلیم نُورمحمد بھٹی سے حاصل کی اور بھٹ شاہ بارہ میل دور گاؤں وائی کے رہنے والے اور مشہور مُدرس تھے آپ نے اپنے والد شاہ حبیب سے دینی تعلیم حاصل کی۔
مزید پڑھیں: 7 افراد کا 15 سالہ لڑکی سے اسلحہ کی نوک پر گینگ ریپ
شاہ عبد اللطیف بھٹائی کی ولادت کے کچھ دنوں بعد ان کے والد اپنے آبائی گاؤں چھوڑ کر کوٹری میں آکر رہنے لگے۔ پانج چھ سال کی عمر میں آخوند نور محمد کی مشہور درسگاہ میں تحصیل علم کے لیے بھیجے گئے۔ عام روایت ہے کہ شاہ صاحب نے الف کی سوا کچھ اور پڑھنے سے صاف انکار کر دیا۔آپ کے کلام کو "شاہ جو رسالو" کا نام دیا گیا ہے۔ شاہ صاحب عشق مجازی میں گرفتار ہوکر تین سال تک صحراؤں اور جنگلوں کی خاک چھانتے رہے اور اسی عالم میں ٹھٹھہ جا پہنچے ۔وہاں ایک صوفی بزرگ محمد معین ٹھٹھوی سے ملاقات ہوئی ۔انہوں نےان کی روحانی تربیت کرتے ہوئے عشق مجازی سے عشق حقیقی کی راہ پر ڈالا ۔انہوں نے شاہ صاحب کے دل میں عبادت الٰہی ،ریاضت کی لگن، اولیاء اللہ ے محبت ، والدین کی اطاعت، انسانیت کی خدمت کا جذبہ پیدا کیا ۔ اسی جذبے نےشاہ صاحب کو والد کی خدمت میں پیش کر دیا۔آپ اپنے والد سے ملے تو وہ بہت خوش ہوئے۔
شاہ عبداللطیف نے بھٹ شاہ کےٹیلوں کے نزدیک نہر کراڑ کے کنارے بیٹھ کر اپنا صوفیانہ کلام مرتب کیا، جو بعد میں دنیا بھر میں’’شاہ جو رسالو‘‘ کے نام سے معروف ہوا۔شاہ لطیف بے اتنہا متقی اور پرہیز گار تھے، دنیاوی آلائشوں سے آپ کا دور کا بھی واسطہ نہ تھا، ساری عمر عبادت و ریاضت میں گزری۔ انہوں نے اپنے منظوم کلام میں ہر جگہ اخلاقیات کادرس دیا ہے۔ ’’شاہ جو رسالو' میں سندھ کی منظوم تاریخ بھی رقم کی گئی ہے جوکے دنیابھرمیں مشہور ہے ۔
شاہ بھٹائی کے رسالے میں موجود شاعری کے تمام بابوں کے نام خواتین سے منسوب ہیں۔ان کی شاعری کی سورمیاں (ہیروئن)خواتین ہی قرار دی گئی ہیں۔ سسی، مارئی، مومل، سوہنی، نوری، یہ سب وہ کردار ہیں جن کو انہوں نے اپنی شاعری میں بیان کرکے اَمر کر دیا ہے۔ انہوں نے مرد کے بجائے اپنے کلام کے اظہار کے لیے خواتین کا چناؤ کیا ہے، تاکہ معاشرے کو اس بات کا احساس دلایا جا سکے کہ عورت جسے ہمارے معاشرے میں کمتر مخلوق گردانا جاتا ہے،وہ بھی ایک اعلیٰ و ارفع مقام رکھتی ہے۔ان کا کلام آپ کے فقرا کو زبانی یاد تھا
شاہ عبداللطیف بھٹائی نے 14 صفر 1165 ہجری بمطابق 1752 عیسوی میں وفات پائی، آپ کی وصیت کے مطابق آپؒ کی بھٹ شاہ میں ہی تدفین کی گئی۔ سندھ کے حکمران غلام شاہ کلہوڑو نے ان کا عظیم الشان مقبرہ تعمیر کرایا جس پر قدیم عرصے سے لے کر آج تک ملک سمیت دنیا بھر سے لوگ انہیں سلام کرنے آتے ہیں۔