نگران حکومت مہنگائی تو کم نہین کر سکتی نہ ہی وہ تین اجلاسوں کے بعد بجلی کی قیمت میں کوئی کمی کر سکی ہے لیکن اسی نگران حکومت نے منڈیٹ نہ ہونے کے باوجود ایسے اقدامات اور فیصلے کیے ہیں جن سے ان کے نگران ہونے پر شک ہونا شروع ہو گیا ہے۔یہ حکومت نگران کی بجائے فریق زیادہ محسوس ہونا شروع ہو گی ہے۔پروگرام’10تک‘میں میزبان ریحان طارق نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ تازہ ترین اقدمات میں ایک یہ ہے کہ اس نگران حکومت کی نگران کابینہ نے قانون مین ایک ایسی متنازعہ ترمیم کی ہے جس کا اختیار اس کو نہیں تھا۔اس ترامیم کے ذریعے کسی حاضر سروس فوجی افسر کو بھی چیئرمین نادرا تعینات کیا جاسکے گا۔ذرائع نے بتایا کہ پہلے سے طے شدہ قواعد میں ترمیم سے منتخب کیے گئے افراد کی تقرری نہ ہونے کا خدشہ ہےچیئرمین نادرا کے عہدے پر ڈیپوٹیشن یا سیکنڈمنٹ کے طور پر کسی افسر کو تعینات کیا جاسکے گا۔ذرائع نے مزید کہا کہ چیئرمین نادرا کی تعیناتی کیلئے قواعد میں دوسری بار تبدیلی کی گئی ہے۔نادرا ایک ایسا ادار ہے جہاں پر تمام پاکستانیوں کا ڈیٹا موجود ہے۔آئندہ الیکشنز میں نادرا کا قلیدی کردار ہوگا۔ووٹر لسٹوں سے لے کر انتخابی نتائج اور اس کے بعد تک نادار کا ادارہ مرکز نگا ہوگا۔کیونکہ یہاں سے ہی اعداد و شمار کی ہیر پھیر اور ووٹر ز کے ڈیٹا کو بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔الیکشن سے چند ماہ قبل اس طرح قوانین میں ترامیم انتہائی متنازعہ تصور کی جا رہی ہے۔یہاں سوال ہے کہ نگران کیا نگران حکومت جو الیکشن کمیشن کی اجازت کے بغیر کسی بھی قسم کے تقرر وتبادلے تک نہیں کر سکتی ۔وہ قانون میں ترامیم کی مجاز ہے؟یہاں سوال یہ بھی ہے کہ نگران حکومت تو صرف روز مرہ کے امور ک چلانے اور الیکشن میں معاونت کا منڈیٹ لے کر اتی ہے۔وہ نگران حکومت اس طرح کی اہم قانون ترامیم کر سکتی ہے؟ان تمام سوالات کا جوابات آئین اور قانون کے مطابق نفی میں ہے۔گزشتہ مہینوں میں جب پی ٹی آئی کے دور حکومت او اس کے بعد ن لیگ کے دور حکومت میں چئیرمیْن نادار رہنے والےطارق ملک نے اپنے استعفیٰ پیش کرتا ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم کو ایک خط م لکھا تھا جس میں انہوں نے اس عہدے کے لیے کسی موزوں شخص کو مقرر کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہاکہ کسی حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ کو چیئرمین نادرا تعینات نہ کیا جائے۔انہون نے وزیر اعظم سے ملاقات بھی کی تھی جس مین وزیر اعظم نے ان سے موضوع شخص جو اس عہدے کے قابل ہو بتانے کا کہا تو انہوں نے کہا تھا کہ نوجوان پاکستان کا سرمایہ ہیں اور پارلیمان سے ہی ملکی ترقی و خوشحالی وابستہ ہے۔ اسی سوچ کے تحت نادرا کی قیادت کی ذمہ داری کسی بیوروکریٹ کی بجائے آئی ٹی ایکسپرٹ کو تعینات کیا جائے۔ نادار کے منسلک رہنے والے ماہرین ۔عالمی اداروں کی مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات ہر پاکستانی جانتا ہے کہ اہم ادارون کی بھاگ دوڑ اس سے منسلک ماہرین کے سپرد کی جائے تو ہی ترقی اور شفافیت ممکن ہے۔ اس کے باوجود ایک ایسی نگران کابینہ جسے کو ابھی کچھ ہی دن ہوئے ایسے ایسے فیصلے کر رہی ہے جو مستقبل میں فسادات اور مسائل کو ہوا دے گے۔
سوال یہ ہے کہ نگراں حکومت کیا کچھ کرنے کی مجاز ہے؟ اس سوال کا جواب الیکشن ایکٹ کی سیکشن 230 کے پہلے حصے میں موجود ہے۔ اس سکیشن کے مطابق نگران حکومت محض روزمرہ کے ضروری حکومتی معاملات ہی دیکھے گی۔ عام انتخابات یقینی بنانے میں الیکشن کمیشن کی معاونت بھی نگراں حکومت کی ذمہ داری ہے جبکہ خود کو غیر جانبدار اور غیر متنازعہ سرگرمیوں تک محدود رکھتے ہوئے وہی اقدامات کرے گی جنہیں نئی منتخب حکومت چاہے تو ختم کرسکے۔الیکشن ایکٹ واضح پابندی لگاتا ہے کہ نگراں حکومت کوئی بڑا پالیسی فیصلہ لے گی نہ ہی اسے کوئی بڑا معاہدہ کرنے کا اختیار ہے۔ ترقیوں اور تعیناتیوں کا اختیار بھی محدود ہے، کسی بھی سرکاری افسر کا تبادلہ کرنے کیلئے الیکشن کمیشن کی اجازت لازم ہے