صحافی ارشد شریف کا قتل،کیا مقتول کو انصاف مل پائے گا؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
20 اگست کو کینیا پہنچنے والے ہمارے ملک کے سینئر صحافی ارشد شریف جن کو 23 اکتوبر کو سر راہ متعدد گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا تھا ان کے مبینہ قاتل یا اس کم میں ملوث تمام کے تمام پولیس افسران ڈیوٹی پر واپس پہنچ چکے ہیں ۔ان میں سے دو افراد کو تو ترقی سے بھی نوازا گیا ہے۔جس ملک سے ارشد ندیم کا تعلق تھا وہاں اس کے قاتلوں کے کیفردا ر تک پہنچانے اور اس کیس کی پوری تفتیش کرنے کے اعلانات اور دعوے تو بہت ہوئے۔پروگرام’10تک ‘میں گفتگو کرتے ہوئے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ تک نے اس کیس کو ٹیک اپ کیا۔وفاقی حکومت نے انوسٹی گیشن ٹیم بھی تشکیل دی ۔آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی نے گھنٹوں طویل پریس کانفرنس تک کی ۔فیصل ووڈا جیسے کئی کردار سامنے آئے جن کے مطابق ان کو اس تمام تر سازش کا علم تھا لیکن ان تمام دعوووں،وعدوں کا نتیجہ صفر رہا۔ہمارے ملک کی یہ تاریخ رہی ہے کہ ہم آج تک کبھی ہائی پرفائل کیسز کو حتمیٰ انجام تک پہنچا نہیں پاتے۔جس کا واضع مطلب ہم اس کی شائد صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ارشد شریف کے قتل میں ملوث پولیس پارٹی کے پانچوں اہلکاروں کو اب کینیا حکام نے بے گناہ قرار دیا ہے۔جبکہ 2 اہلکاروں کو سینیئر رینک پر ترقی بھی دے دی گئی۔کینیا کی انڈیپینڈنٹ پولیسنگ اینڈ اوور سائٹ اتھارٹی (آئی پی او اے)جسے ان افسران کے طرزعمل کی تحقیقات کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، نے 9 ماہ سے زیادہ گزر جانے کے باوجود رپورٹ عام نہیں کی۔ٹائم اسکیل دینے سے انکارکرنے والے اتھارٹی ترجمان نے یہ بھی نہیں بتایا کہ واچ ڈاگ نے اتنا وقت کیوں لیا اور پولیس افسران بغیر کسی احتساب کے ملازمت پرواپس کیوں آ رہے ہیں۔ آئی پی او اے نے پہلے ہی اپنی فائل ڈائریکٹر آف پبلک پراسیکیوشن (ڈی پی پی) کے دفتر کے حوالے کردی تھی لیکن اسے واپس کردیا گیا تھا اوراستغاثہ کا عمل شروع ہونے سے پہلے کچھ خلا پُرکرنے کے لئے کہا گیا تھا۔یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جنرل سروس یونٹ (جی ایس یو) سے منسلک ایک پولیس افسر جسے مبینہ طور پرجائے واردات پر گولی ماری تھی،اسپتال سے فارغ ہونے کے فورا بعد کام پر واپس چلا گیا تھا۔ اس نے دعویٰ کیا تھا کہ جب ارشد شریف کی گاڑی کے اندر سے گولیاں چلائی گئیں تو انہیں گولی لگی تھی تاہم فرانزک تحقیقات میں یہ جھوٹ نکلا۔کینیا کے ایک بااعتماد انٹیلی جنس ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کینیا میں نیشنل پولیس سروس (این پی ایس) نے تفتیش میں سست روی کا مظاہرہ کیا کیونکہ اس میں اس کے اپنے ارکان شامل تھے اور جس ادارے کو اس طرح کی تحقیقات کرنے کی اجازت دی گئی تھی وہ آئی پی او اے تھا۔تفتیش میں شامل اور معاملے کی اندرونی تفصیلات رکھنے والے افسر نے کہا کہ پولیس خود تحقیقات نہیں کر سکتی اور آئی پی او اے سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے نتائج جاری کرے۔ حالانکہ، پولیس کے پاس بھی اسی معاملے پر اپنی فائل ہے،’’کینیا کے ہیومن رائٹس کمیشن کے رکن مارٹن ماوینجینا نے ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ پہلے ہی واضح ہو چکا ہے کہ کینیا میں نیشنل پولیس سروس اس معاملے کی تحقیقات میں دلچسپی نہیں رکھتی۔یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ وقار اور خرم کے اہل خانہ نے مطالبہ کیا تھا کہ ان کی موٹر گاڑی، جس کا رجسٹریشن نمبر کے ڈی جی 200 ایم ہے، جس میں صحافی کو قتل کیا گیا تھا، انہیں واپس کی جائے۔کینیا میں مقیم خاندان کے ایک رکن نے بتایا کہ ٹویوٹا لینڈ کروزر کو واپس لانے کا عمل پہلے ہی ایڈوانس مرحلے میں ہے۔معاملے کی حساسیت کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اہل خانہ نے کہا، ’کچھ ہی وقت میں گاڑی واپس کر دی جائے گی کیونکہ وہ پہلے ہی کیسریاں پولیس اسٹیشن کے انچارج افسروں سے رابطہ کر چکے ہیں جہاں یہ واقعہ پیش آیا ہے‘۔یہ بھی ثابت ہے کہ پولیس نے واقعے پرمتوازی تحقیقا کی تھیں لیکن نتائج کوعام نہیں کیا گیا ہے معاملے کے تفتیشی افسر کینیڈی کروائی کے مطابق ، ’پولیس کی تحقیقات فی الحال روک دی گئی ہیں‘۔خرم اور وقار دونوں نے ارشد شریف کے قتل میں ملوث ہونے سے انکار کیاتاہم وہ کینیا میں ہی ہیں اور قتل کے بعد سے پاکستان واپس نہیں آئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ صحافی ارشد شریف کا قتل،کیا مقتول کو انصاف مل پائے گا؟