(ویب ڈیسک) مہنگائی کی چکی میں پستی عوام پر مہنگی بجلی کسی معاشی عذاب سے کم نہیں ہے،ملک بھر میں بجلی بلوں کیخلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، جس کے باعث حکومت نے ایک بار پھر سے آئی ایم ایف حکام سے رابطہ کیا ہے، اعلیٰ حکام نے آئی ایم ایف سے اپنی شرائط میں نرمی کرتے ہوئے پاکستانی عوام کو سستی بجلی مہیا کرنے کی درخواست کی تھی۔
جس پر آئی ایم ایف کی جانب سے گزشتہ روز پلان طلب کیا گیا تھا اور اب خبر آئی ہے کہ پاکستان نے مہنگی بجلی کے تناظر میں ملکی صارفین کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے آئی ایم ایف کے ساتھ ایک پلان شیئر کیا ہے اور ساتھ ہی یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ عالمی ادارے کے مقرر کردہ اہداف کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔
نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کا کہنا ہے کہ انہوں نے براہِ راست آئی ایم ایف حکام سے بات نہیں کی، پاکستان کی طرف سے ایک ٹیم نے عالمی ادارے کے حکام سے بات چیت کی ہے اور وہ آئی ایم ایف پروگرام کو جاری رکھنے کیلئے پرعزم ہیں،تاہم وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ 2023-24ء کے بجٹ میں ہنگامی بنیادوں پر 250 ارب روپے مختص کیے گئے تھے اور یہ رقم بجلی صارفین کو ریلیف دینے کیلئے استعمال کی جاسکتی ہے، مجوزہ ریلیف پیکج پر آئی ایم ایف کو قائل کرنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے اور یہ ریلیف پیکیج 400 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین تک محدود ہو سکتا ہے، بھاری بلز بھی بھیجے جائیں گے جب کہ بجٹ میں مختص کردہ ہنگامی رقم محفوظ صارفین (پروٹیکٹڈ کنزیومرز) کو ریلیف دینے کیلئے استعمال کی جاسکتی ہے۔
ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار نے بتایا یہ رقم آئی ایم ایف کی اجازت سے صرف 400 یونٹ سلیب والے صارفین کیلئے استعمال کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کی سبسڈی، گردشی قرضے میں جمع ہونے کے مقررہ ہدف کے ساتھ جی ڈی پی کے 0.4 فیصد کے بنیادی سرپلس کی وجہ سے آئی ایم ایف کے طے شدہ اہداف کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی ، انہوں نے اعتراف کیا کہ تحریری طور پر آئی ایم ایف کے ساتھ یہ منصوبہ شیئر نہیں کیا جس سے معاشی ماہرین کے مطابق بجلی کے صارفین کیلئے مجوزہ ریلیف پیکج میں مزید تاخیر ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:الیکشن کب ہوں گے؟لیگی رکن نے صاف صاف بتا دیا
پاکستان کے معروف ماہر معاشیات اور وائس چانسلر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) ڈاکٹر ندیم الحق نے بدھ کو ٹوئٹ کیا اور کہا ’’ہر حکومت کیوں آتی ہے اور یہ کیوں کہتی ہے کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ حالات کتنے خراب تھے، ارے بھئی آپ لوگ اخبارات نہیں پڑھتے، ہمارے ادارے کے ویبینارز نہیں سنتے اور ہمارے ادارے کا تحقیقی کام نہیں پڑھتے، آپ ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے جاگیں اور کچھ سیکھ لیں۔‘‘