(24نیوز)ملک بھر میں 10 صحافی قتل جبکہ متعدد مختلف انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنے۔سی پی این ای نے پاکستان میڈیا فریڈم رپورٹ 2020 جاری کر دی ہے۔
تفصیلا ت کے مطا بق رواں سال پاکستان میں میڈیا فریڈم کو دشوار چیلنجز کا سامنا رہا ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے نئے اور مختلف چیلنجز درپیش رہے۔ صحافیوں کو غائب کرنے، ہراساں کرنے اور جسمانی تشدد کے بے شمار واقعات پیش آئے ۔ صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران ساجد حسین، ذوالفقار مندرانی، شاہینہ شاہین، قیص جاوید، جاوید اللہ خان، انور جان کھیتران، عابد حسین عابدی، نور حسن لنجوانی، ملک نظام تانی اور عزیز میمن سمیت کم از کم 10 صحافیوں قتل کیا گیا۔
کورونا وبا سے کم و بیش 8 صحافی زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ متعدد نے کورونا کو شکست دی۔ آزادی صحافت شدید دبا کا شکار رہی، سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے قوانین بنائے گئے صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی پر سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا ۔مختلف واقعات میں صرف صحافی ہی نہیں بلکہ ان کے اہلخانہ بھی جسمانی حملوں اور اذیت کا شکار ہوئے۔ جھوٹے مقدمات،گرفتاریوں ،اغوا، نا معلوم فون کالز کے ذریعے ہراساں کرنے، آن لائن ہراساں کرنے ، ادبی مواد پر نشانہ بنایا گیا ۔
رپو رٹ میں کہاگیا ہے کہ میڈیا سے منسلک تمام افراد نے ملک میں کورونا کے بڑھتے ہوئے واقعات سے نمٹنے کے لئے سخت جدوجہد کی۔ کورونا وائرس سے بچا ئوکی خاطر لاک ڈائون کے سبب معاشی مسائل کا بھی میڈیا کارکنوں اور میڈیا اداروں کو سامنا کرنا پڑا ۔صحافی مطیع اللہ جان کو اسلام آباد سے دن دہاڑے اغوا کیا گیا۔ جیو نیوز کے صحافی علی عمران سید کراچی سے لاپتہ ہوگئے ۔پاکستان رینجرز کے اہلکاروں نے کراچی پریس کلب کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے 27 جولائی 2020 کو چھاپہ مارا۔ میڈیا کو کنٹرول کرنے کے نت نئے حکومتی ہتھکنڈوں سے میڈیا کمیونٹی میں شدید تشویش اور سراسیمگی کی صورتحال پیدا ہوئی ۔پیمرا نے متعدد مواقع پر ٹی وی چینلز کو نوٹسز اور نشریات بند کیں ،جبکہ چینلز کو آخری نمبروں پر منتقل کیا گیا ۔
سوشل میڈیا کے غیر قانونی آن لائن مواد کو ختم کرنے اور مسدود کرنے کے قواعد 2020 کے عنوان سے قانون تشکیل دیا گیا ۔سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے نئے قانون کو سی پی این ای سمیت 18 سے زائد تنظیموں نے غیر ضروری غیر آئینی اور متعصبانہ حکومتی اقدام قرار دیا ۔ملک میں ایسی فضا رہی جیسے صحافیوں اور میڈیا کارکنوں پر حملے کرنے والوں کو سزا سے استثنی حاصل ہو ۔شاہ زیب خانزادہ اور وسیم بادامی پر ہتک عزت کا مقدمہ کرتے ہوئے دونوں صحافیوں کو ایک ایک ارب روپے ہرجانے کے نوٹس بھجوائے گئے ۔بلوچی زبان کے واحد نجی ٹی وی چینل کو بھی بندش کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے سینکڑوں میڈیا ملازمین اور صحافی بے روزگار ہو گئے۔
صحافی تراب شاہ آفریدی کو دھمکی آمیز کال کرنے والے کے خلاف ایف آئی آر کے باوجود مقامی پولیس نے تحقیقات روک دی۔ سینئر صحافی محمد حنیف اور سہیل وڑائچ کی کتابیں لاہور اور کراچی میں حکام کی جانب سے ضبط کی گئیں۔ وفاقی وزارت اطلاعات نے 6 ہزار سے زیادہ اشاعتوں کو ڈمی اخبارات قرار دینے کے بعد ان کی رجسٹریشن معطل کر دی۔ ریڈیو پاکستان کے1069ملازمین کو بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ سال 2020 میں بھی میڈیا ادارے شدید مالی بحران کا شکار رہے۔ دو میڈیا کارکن تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے سبب معاشی دبا ئوبرداشت نہ کر سکے اور زندگی کی بازی ہار گئے۔