ملٹری ٹرائل کیس: 9 مئی اور 16 دسمبر والے شہریوں میں کیا فرق ہے؟ آئینی بنچ

Jan 31, 2025 | 11:13:AM

(24 نیوز )فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیل کیس میں جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ 9 مئی اور 16 دسمبر والے شہریوں میں کیا فرق ہے؟ 

سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی جس دوران جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد نے دلائل دیئے۔ 

وکیل خواجہ احمد نے کہا کہ شہری ملٹری ٹرائل میں نہیں آتے، میں مکمل آرمی ایکٹ کو بالکل چیلنج نہیں کر رہا، جسٹس منیب نے بھی اپنے فیصلے میں اسی دلیل کا حوالہ دیا ہے۔

 سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس: کیا 9 مئی کا جرم دہشتگردی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہے؟ جج آئینی بینچ 

مزید پڑھیں:سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس: کیا 9 مئی کا جرم دہشتگردی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہے؟ جج آئینی بینچ

 جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایف بی علی کیس میں تنازع ہوا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے ویسا بھی ہو سکتا ہے، آج کل ایسی بھی سوچ ہےکہ کوئی سیاسی جماعت ایسی حرکت کرے تو کیا ہونا چاہیے، گزشتہ روز میں نے مہران بیس اور دیگر چندواقعات کا ذکر کیا تھا۔ 

جسٹس مسرت نے کہا کہ گزشتہ روز ہمیں قائل کیا گیا کہ فوجی ٹرائل فئیر ٹرائل ہوتا ہے، 9 مئی اور 16 دسمبر والے شہریوں میں کیا فرق ہے؟ 

 16 دسمبر والے افراد دہشتگردانہ واقعات میں ملوث تھے، ان کے ٹرائل کے لیے ترمیم کرنا پڑی تھی، وکیل خواجہ احمد
اس پر وکیل خواجہ احمد نے کہا کہ 16 دسمبر والے افراد دہشتگردانہ واقعات میں ملوث تھے، ان کے ٹرائل کے لیے ترمیم کرنا پڑی تھی جس کے بعد ملزمان کے ٹرائل ہوئے تھے۔ 

وکیل خواجہ احمد نے کہا کہ افواجِ پاکستان کے سول ملازمین پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے، اس پر جسٹس حسن اظہر نے سوال کیا کہ کیا ائیر بیسز  پر حملہ کرنے پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے؟

دوران سماعت وکیل خواجہ احمد نے 9 مئی پر افواج پاکستان کے اعلامیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایس پی آرنے 9 مئی واقعے پر 15 مئی کو اعلامیہ جاری کیا، ہمیں اعلامیے پر کوئی اعتراض نہیں، اعلامیے میں کہا گیا کہ 9 مئی پر ادارے میں دکھ اور درد پایا جاتا ہے، کہا گیا 9 مئی کے نا قابل تردید شواہد موجود ہیں، اعلامیے کے بعد ملٹری ٹرائل میں فیئر ٹرائل کیسے مل سکتا ہے؟ 

مزید پڑھیں:وزارت دفاع نے سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس کا ریکارڈ آئینی بنچ میں پیش کردیا

وکیل خواجہ احمد نے کہا کہ ہمارا مقدمہ آئین سے باہر نہیں ہے، 9 مئی ملزمان کا ٹرائل ہو لیکن فوجی عدالتوں میں نہیں، خود متاثرہ فرد شفاف ٹرائل نہیں دے سکتا۔ 

100 گنہگاروں کو چھوڑنے سے زیادہ غلط ایک بے گناہ کو سزا دینا ہے، جسٹس مندوخیل
جسٹس محمد علی نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی شق 2 ون ڈی2 کالعدم کرنےسےکلبھوشن کیس میں ملٹری ٹرائل نہیں ہوسکےگا، جسٹس حسن نے سوال کیا کہ کیا مستقل میں اگر کوئی ملک دشمن جاسوس پکڑا جائے تو ٹرائل کہاں ہوگا؟ 

اس پر وکیل احمد حسین نے کہا ملک دشمن جاسوس کا ٹرائل انسداد دہشتگردی عدالت میں ہوگا۔ 

اس موقع پر جسٹس امین نے کہا کہ عجیب بات ہے،قانون کی شق کالعدم قراردی جائے اورکہاجائے کہ اسپیشل ریمیڈی والوں کواستثناء ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا مستقبل میں کیا افواج پاکستان آرمی ایکٹ کا سیکشن 2 ون ڈی 2 استعمال کرسکتی ہے؟ وکیل احمد حسین نے جواب دیا مستقبل میں 2 ون ڈی 2 کا استعمال نہیں ہو سکے گا۔ 

 وکیل خواجہ احمد نے دلائل دیے کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں اپنی پسند کا وکیل کرنے کی اجازت نہیں، کورٹ مارشل میں وکیل آرمی چیف کی اجازت سے ملتا ہے، آرمی چیف اجازت نہ دیں تو پسند کا وکیل نہیں ملتا، فیصلہ کوئی کرتاہے اور فیصلے کو کنفرم دوسری اتھارٹی کرتی ہے، ایسے تو کنفرمنگ اتھارٹی ناٹ گلٹی کو گلٹی بھی کر سکتی ہے۔ 

مزید پڑھیں:9 مئی کا جرم تو ہوا ہے، سوال ٹرائل کا ہے کہ کہاں ہوگا، جسٹس جمال مندوخیل 

عدالت کے سامنے جب شواہد نہیں ہوں گے تو فیصلے کیسے دیں گے؟ جسٹس مندوخیل
اس موقع پر جسٹس مسرت نے کہا کہ آپ ملزمان کا کیس یہاں لڑ رہے ہیں جو ہمارے سامنے نہیں، جسٹس حسن نے کہا آپ کے مطابق شہری کا ٹرائل فوجی عدالت میں نہیں بلکہ انسداددہشتگردی عدالت میں ہونا چاہیے، موجودہ صورتحال میں ملک کے ڈھائی صوبے دہشتگردی کی لپیٹ میں ہیں، ملک میں مکتی باہنی کی تحریک نہیں، حملہ آور سویلینز ہی ہیں۔

جسٹس مندوخیل نے کہا کہ دہشتگردی روکنا ایڈمنسٹریشن کا کام ہے، شواہد اکٹھےکرنا ان کی ذمہ داری ہے، عدالت کے سامنے جب شواہد نہیں ہوں گے تو فیصلے کیسے دیں گے؟ پھر کہتے ہیں کہ پاکستان کی عدلیہ 123 نمبر پر ہے، اس موقع پر جسٹس حسن نے کہا انسداددِہشتگردی عدالت ہو یا کوئی بھی، بہتری کےلیے اصلاحات ضروری ہیں۔ 

مزید پڑھیں:سویلینز کے ملٹری ٹرائل: نیچرل جسٹس میں کسی کو سنے بغیر سزا نہیں ہو سکتی، آئینی بنچ

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 100 گناہ گاروں کو چھوڑنے سے زیادہ غلط ایک بے گناہ کو سزا دینا ہے، ہم نے صرف فیصلہ کرنا ہے، انصاف اللہ ہی کر سکتا ہے۔

جسٹس حسن نے کہا کہ سامنے قتل ہو جائے  پھر بھی کوئی گواہی نہیں دیتا، گواہان کو تحفظ نہیں دیا جاتا، قتل کیس میں25، 25 تاریخیں تو وکیل لے جاتا ہے۔

جسٹس مندوخیل نے کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم 4 سال کے لیے ہوئی جس کے تحت خصوصی عدالتیں قائم ہوئیں، ترمیم کا کوئی فائدہ ہوا؟

بعد ازاں عدالت نے سویلینز کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیس کی مزید سماعت 3 فروری تک ملتوی کردی۔ 

مزیدخبریں