(24 نیوز)وزیر اعظم عمران خان نے مستعفی ہونے سے انکار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اتوار کو اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر جو بھی فیصلہ آئےگا میں اس کے بعد مزید تگڑا ہو کر سامنے آؤں گا، سات مارچ کو ایک ملک سے سفیر کے ذریعے دھمکی آمیز پیغام آیا جس میں کہاگیا اگر عمران خان چلا جاتا ہے تو ہم پاکستان کو معاف کردیں گے ،اگر تحریک ناکام ہوئی تو پاکستان کو مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، تھری اسٹروجز کے رابطے ان لوگوں سے ہیں، جن کے ذریعے ساری سازش ہوئی ہے ، بیرون ملک ان کی کرپشن کے خلاف خبریں چھپی ہوئی ہیں، اپنے ملک کےلئے ان کا اخلاقی معیار یہ ہے کہ چھوٹی سی چیز پر کسی بھی عہدیدار کو نکال دیتے ہیں، وہ لوگ جن پر سالوں سے کرپشن کے الزامات ہیں،نیب کیسز ہیں، قوم نے فیصلہ کرنا ہے ملک کدھر جائے گا، مجھے کہا گیا استعفیٰ دے دیں، میں آخری گیند تک مقابلہ کرتا ہوں ، ہار نہیں مانوں گا، دیکھنا چاہتا ہوں کہ کون جا کر اپنے ضمیرکا فیصلہ کرتا ہے، اگر کسی کو ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا تو استعفیٰ دیتے، ہم نوجوانوں کا آج کیا سبق دے رہے ہیں، منحرف اراکین کو لوگوں نے معاف نہیں کر نا ،میر صادق اور جعفر کون تھے جنہوں نے انگریزوں کے ساتھ مل کراپنی قوم کو غلام بنایا، یہ موجودہ دور کے میر جعفر اور میر صادق ہیں، آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی،میں خاموش نہیں بیٹھوں گا، مجھے پرچی یا وراثت میں وزارت نہیں ملی، میں جدوجہد کرکے یہاں پہنچا ہوں، مقابلہ کروں گا۔
قوم سے خطاب میں وزیر اعظم نے کہاکہ خودداری ایک آزاد قوم کی نشانی ہوتی ہے، جہاں انصاف نہیں ہوتا وہ قومی تباہ ہوجاتی ہیں، مسلمان قوم غلام نہیں بن سکتی، کیونکہ لا الہ الا اللہ کا مطلب ہی یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی بندگی نہیں۔انہوں نے کہاکہ اللہ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہے، فرشتوں سے بھی بڑا درجہ دیا ہے لیکن ہم میں جب ایمان کی کمزوری ہوتی ہے اور ہم پیسے اور خوف کی پوجا کرتے ہیں تو چیونٹی کی طرح رینگنے لگتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے بچپن میں ساری دنیا پاکستان کی مثالیں دیتی تھی، بعد میں نے اپنے ملک کو ذلیل ہوتے دیکھا، اللہ نے اگر انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے تو اس کی شرط رکھی ہے، نبی کریم کا راستہ آسان نہیں تھا لیکن عظمت والا اور عزت والا راستہ تھا، اللہ نے ہمیں اسی راستے پہ چلنے کا حکم دیا ہے۔وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان کا مقصد بڑا عظیم تھا، ہم نے اسلامی فلاحی ریاست بننا تھا، جب ہم اسلامی فلاحی ریاست کہتے ہیں اس کا مطلب مدینہ کی ریاست ہوتا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ جب میں نے سیاست شروع کی تو منشور میں تین چیزیں رکھیں، پہلے انصاف، دوسرا انسانیت اور تیسری چیز خود داری تھی۔انہوں نے کہا کہ غلامی چاہے پیسے کی ہو یا دوسری چیزوں کی وہ شرک ہے، اللہ اگر میرے اندر ایمان نہیں ڈالتا تو میں سیاست میں نہیں آتا اور میرے پاس سب کچھ تھا، تو مجھے سیاست میں آنے کی کیا ضرورت تھی۔انہوںنے کہاکہ میں نے پاکستان کی اونچ نیچ دیکھی ہے، ہم بچے تھے تو پاکستان کی مثالیں دی جاتی تھیں، جنوبی کوریا سیکھنے کے لیے پاکستان آیا تھا، ملائیشیا کے شہزادے اسکول پڑھنے پاکستان آئے تھے اور میرے ساتھ پڑھے۔انہوں نے کہا کہ میں پاکستان کو ذلیل ہوتے دیکھا ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانیوں کو ذلت ملی۔وزیراعظم نے کہا کہ شاہین اس وقت اوپر جاتا ہے جب وہ مزاحمت کرتا ہے اور مشکل کا سامنا کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم زمین میں چونٹیوں کی طرح رینگ رہے ہیں، میں نے ہمیشہ ایک چیز کہی کہ میں کبھی نہیں جھکوں اور نہ اپنی قوم کو جھکنے دوں گا اور کبھی اس سے پیچھے نہیں ہٹا، جب اقتدار ملا تو فیصلہ کیا کہ آزاد خارجہ پالیسی ہوگی۔انہوں نے کہاکہ آزاد خارجہ کا مقصد پاکستان اور پاکستانیوں کا فائدہ تھا، کبھی کسی کے خلاف ہو ہی نہیں سکتا۔وزیراعظم نے کہا کہ میں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شمولیت کی مخالفت کی کیونکہ نائن الیون میں پاکستان کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ جو پاکستانیوں کی جانی قربانی دی گئی وہ امریکا سمیت کسی ملک کی نہیں دی گئی، کوئی نیٹو ملک نے اتنی جانی قربانی نہیں دی، قبائلی علاقے پرامن ترین تھا، وہ علاقے کرائم فری تھے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے جب حکومت ملی تو پہلے دن سے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پاکستان کے لوگوں کے لیے ہوگی، یہ کسی کے خلاف نہیں تھی، امریکا یا کسی اور ملک کے خلاف نہیں تھی، یہاں تک بھار تکے خلاف بھی نہیں تھی۔انہوں نے کہاکہ بھارت کے خلاف 5 اگست 2019 کو کشمیر میں بین الاقوامی قانون توڑا تو اس کے خلاف ہوگیا۔وزیراعظم عمران خان نے میں آپ کے پاس یہ ساری بات کرنے کےلئے اس لیے آیا ہوں کہ ابھی ہمیں 8 مارچ کو یا اس سے پہلے 7 مارچ کو ہمیں امریکا نے (نہیں باہر سے ملک کا نام مطلب کسی اور ملک سے باہر سے) میسج آتی ہے، میں یہ اسی لیے آپ کے سامنے میسج کی بات کرنا چاہ رہا ہوں، یہ ایک کسی آزاد ملک کےلئے جس طرح کا ہمیں پیغام آیا ہے، یہ ہے تو وزیراعظم کے خلاف ہے لیکن یہ ہماری قوم کے خلاف ہے۔انہوں نے کہاکہ مجھے سب سے زیادہ تکلیف یہ نہیں ہے، یہ واضح لکھا ہوا ہے کہ جناب اگر عدم اعتماد کا ان کو پہلے سے پتہ تھا، ابھی عدم اعتماد درج نہیں ہوئی تھی، اس کا مطلب یہ جو ہورہا تھا یہ ان کے باہر کے لوگوں سے رابطے تھے۔وزیراعظم نے کہا کہ اس میں مزیدار چیز یہ ہے کہ پاکستان کی قیادت یا پاکستان کی حکومت کے خلاف نہیں، صرف عمران خان کے خلاف ہے، وہ یہ کہتے ہیں اور بہانہ کرتے ہیں کی ہمیں کیوں پاکستان پر غصہ ہے، لیکن پاکستان کو معاف کردیں گے کہ اگر عمران خان عدم اعتماد ہار جاتا ہے یعنی عمران خان کے خلاف ناکام ہوجاتی ہے تو پاکستان کو ایک مشکل وقت کا سامناکرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ریکارڈڈ ہے، یہ نہیں کہ دیکھ رہا ہوں میڈیا کے لوگ کور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایسا نہیں تو ایسا نہیں لیکن یہ سرکاری دستاویز ہے، یہ حکومت پاکستان کو، ہمارے نمائندے سفیر کو نوٹس لے رہے تھے لوگ، جس میں بنیادی طور پر یہ کہا گیا کہ اگر عمران خان وزیراعظم رہتا ہے تو ہمارے تعلقات بھی خراب ہوں گے اور آپ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔انہوںنے کہاکہ میرا قوم سے سوال ہے کہ کیا ہماری یہ حیثیت ہے، 22 کروڑ کی قوم کی، کیا ہمیں کوئی باہر کا ملک، کوئی وجہ نہیں بتا رہا، ایک چیز بتائی کہ عمران خان نے کوئی اکیلا فیصلہ کیا روس جانے کا، حالانکہ روس جانے کا فیصلہ تھا رو وزارت خارجہ، عسکری قیادت کی مشاورت تھی، پرانے سیکریٹر خارجہ کو اسی کمرے میں بلایا تھا ان سے مشاورت کرکے گئے تھے۔انہوں نے کہا کہ لیکن اس میں لکھا ہوا حالانکہ ہمارا سفیر بتارہا ہے کہ مشاورت سے ہوا ہے لیکن وہ کہتا نہیں یہ صرف عمران خان کی وجہ سے ہوا ہے۔عمران خان نے کہا کہ پھر انہوں نے لکھا کہ جب تک وہ ہے ہمارے تعلقات اچھے نہیں ہوسکتے، وہ اصل میں یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ جب جائےگا تو عمران خان کی جگہ دوسرے آئیں گے تو ان سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے، میں اپنی قوم کے سامنے یہ چیز رکھنا چاہتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ میرا آج آپ سے بات چیت کرنے کا مقصد یہ تو نہیں ہے کہ باہر سے کوئی ملک یہ کہے کہ ہاں ہمیں آپ کی خارجہ پالیسی نہیں پسند، پتہ نہیں کوئی کیا وجہ بتارہا ہے کہ روس کیوں گئے، وہ یورپی لیڈرز بھی روس چلے گئے لیکن خاص پاکستان کو کہ آپ کیوں گئے کہ جیسے ہم ان کے نوکر ہوں۔انہوںنے کہاکہ اس میں سب سے مضطرب کرنے والی چیز یہ ہے کہ ان کے رابطے ان لوگوں سے ہیں، جن کے ذریعے ساری سازش ہوئی ہے جو یہاں بیٹھے ہوئے اور یہاں کون بیٹھے ہیں تھری اسٹوجز ہیں، اسٹوجز کا مطلب ہوتا ہے جو کہ بڑے وفادار غلام ہوتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ یہ چاہ رہے ہیں کہ عمران خان جائے لیکن اگر یہ آجائیں، جنہوں نے ابھی عدم اعتماد کیا ہوا ہے، تو سب ٹھیک ہوجائے گا، سب پہلے میرا سوال ہے کہ کیا اپنے ملک کے اندر اجازت دیں گے کسی کو قیادت میں آنے، جن کے اوپر نیب کے کیسز ہیں، جن پر اربوں روپے کے کیسز عدالتوں میں ہیں، وہ جن کو پاکستان کی عدالت نے مجرم قرار دیا، جو جھوٹ بول کر بھاگا ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ کیا وہ ان لوگوں کو جن کے اوپر باہر کے ملکوں میں چوری، کرپشن پر مضمون لکھے ہوئے، بی بی سی سی کی دو ڈاکیومنٹریز آئی ہوئی ہیں ان کی چوری کی، کیا یہ لوگ اپنے ملک میں اس طرح کے لوگوں کو قیادت میں آنے دیں گے۔انہوںنے کہاکہ یہ اپنے ملک جھوٹ بولنے پر نکال دیتے ہیں، چھوٹی چھوٹی چیزوں پر، ان کے لوگوں کا اخلاقی معیار اس سطح پر ہے کہ چھوٹی چیز پر نکال دیتے ہیں، ہمارے ملک میں نیب کے اربوں کے کیسز ہیں، 30 سال سے کیسز ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ پہلے کیسز جنرل مشرف نے ان کو این آر او دیا اور سارے کیسز معاف ہوگئے، پھر 10 سال میں اربوں کے مزید کیسز چڑھ گئے، ان کو یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ٹھیک ہیں لیکن عمران خان ان کو پسند نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھے اگلی چیز سمجھ میں نہیں آرہی جو اپنی قوم سے پوچھ رہا ہوں کہ جب ان کو بھی پتہ ہے، یاد رکھنا جب ان کی انٹیلی جنس ہوتی ہے ان کو سارا پس منظر پتہ ہوتا ہے، میرا ان کو سب پتہ ہے، ساری سیاسی قیادت ہے، ان کا سب پس منظر پتہ ہے، ان کی ایک ایک چیز پتہ ہے، ان کے بیرون ملک کس اکاؤنٹ میں کتنے پیسے میں پڑے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ان کو سب پتہ ہے ان کی بے نامی جائیدادوں کی جو بیرون ملک انہوں نے اربوں روپے کی لی ہوئی ہے، ہر تفصیل ان کو پتہ ہے، ایک ہمارا نوجوان سیاست دان ہے، رون سسکنڈ کی ایک کتاب ہے دا وے آف دا ورلڈ، جس میں وہ لکھتا ہے کہ ان کی نیشنل سیکیورٹی ٹیپ کر رہی ہے، اس کی والدہ اس کو ٹیلی فون کرکے بینک اکاؤنٹس بتارہی ہیں، یعنی ادھر تک ان کو پتہ ہے۔
اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ جو تین لوگ ان کو پسند آگئے ہیں، ان کی کیا خاصیت ان کو پسند آگئی، جنرل مشرف کے برسوں کے اندر 11 ڈرون حملے ہوئے، یہ تینوں اکٹھے اقتدار میں تھے، ان کے 10 سال میں اس ملک میں 400 ڈرون حملے ہوئے۔انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ ان کے منہ سے نہیں نکلا کہ ہم مذمت کرتے ہیں، حامد کرزئی افغانستان میں جب وہاں ڈرون حملوں اور بمباری سے بے قصور لوگ مرتے تھے تو وہ مذمت کرتا تھا جہاں افغانستان میں بیرونی افواج تھیں، یہاں ہم بیٹھے ہوئے ہیں 400 ڈرون حملوں میں ایک دفعہ مذمت نہیں کی، اسی لیے یہ ان کو موزوں ہیں۔انہوں نے کہاکہ مولانا فضل الرحمن کی ایک وکی لیکس، وکی لیکس کیا تھی کہ ایک نس طرح پاناما پیپرز کا انکشاف ہوگیا تھا، انٹرنیشنل خفیہ پیپرز یا دستاویزات لیک ہوگئے تھے، وکی لیکس میں انکشاف ہوتا ہے کہ جو پاکستان کے اندر امریکی سفیر این پیٹرسن اس کو فضل الرحمن کہتا ہے مجھے موقع دیں تو میں بھی وہیں خدمت کروں گا جو باقی کرتے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ نواز شریف کا برکھادت کی کتاب میں ہے کہ نیپال میں نریندر مودی سے چھپ کر مل رہا تھا اپنی فوج سے بچنے کے لیے، ڈان لیکس میں کیا تھا، ہندوستان کو پیغام دیا جارہا تھا کہ فوج کر رہی ہے تو فوج کر رہی ہے میں نہیں کر رہا ہوں۔انہوں نے کہا کہ آصف زرداری کا باب ووڈ ورڈ کی کتاب میں ہے کہ جب ان کا سی آئی اے چیف ان سے کہتا ہے بے قصور لوگ مارے جاتے ہیں تو فکر نہ کریں اگر ڈرون حملے میں بے قصور لوگ مارے جاتے ہیں تو مجھے فرق نہیں پڑتا، یہ پاکستان کا صدر دوسروں کو کہتا ہے۔انہوں نے کہاکہ کتاب میں وہ لکھتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ ایک ملک کا صدر کیسے بات کر رہا ہے، اس طرح کے لوگ ان کو پسند ہیں۔انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کا بیان کہ عمران خان نے ایبسلوٹلی ناٹ کہہ کر غلطی کی ہے، ایبسلوٹلی ناٹ میں کیا تھا، میں نے صرف یہ بات کہی کہ ہم امن میں آپ کے ساتھ ہیں، ہم جنگ میں یا تنازع میں آپ کے ساتھ نہیں ہیں، افغانستان یا کہیں بھی امن چاہتے ہیں ہم ساتھ ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میری پالیسی یہ ہے کیونکہ ہم آزاد ہیں، یعنی ہم ایک آزاد خارجہ پالیسی چاہتے ہیں، ہماری کریڈیبلٹی ہوتی ہے کہ ہم ثالث کا کردار ادا کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ صرف تب ہوتی ہے جب لوگ سمجھیں کہ آپ کی خارجہ پالیسی آزاد ہے، جب لوگ پہلے سمجھتے ہیں کہ جدھر سے حکم آئے گا آپ نے وہی کرنا ہے، آپ کو اتنی بھی شرم نہیں ہے کہ آپ کے ملک میں آپ کا دوست بمباری کر رہا ہے، آپ کے لوگ مر رہے ہیں، آپ اس کو کچھ نہیں کہہ رہے ہیں تو آپ کی کیا کریڈیبلٹی ہوگی اور دنیا آپ کی کیا عزت کرے گی۔انہوں نے کہاکہ جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لے رہے تھے، تو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے پوچھیں ان کو کس ذلت کا سامنا کرنا پڑا، ایئرپورٹس پر پکڑ کر گرفتار کیا جاتا تھا، عام بے قصور لوگوں کو پاکستانیوں کو باہر جیل میں بھیج ڈال دیتے تھے جبکہ یہاں ہم ان کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں اور باہر پاکستانی دشمن بنے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کبھی ان سے پوچھیں، کتنے پاکستانیوں کو جیل میں ڈالا گیا، کبھی کسی نے بات کی، کسی نے ان کے لیے اسٹینڈ لیا۔
انہوں نے کہاکہ میں کسی کے خلاف بات نہیں کرتا، میں صرف یہ کہتا ہوں کہ میری سب سے بڑی ذمہ داری 22 کروڑ لوگ ہیں، ان کے لیے خارجہ پالیسی بناؤں۔دھمکی آمیز پیغام کے بارے میں کہا گیا کہ یہ غلط ہے، پہلے ہم نے کابینہ میں اسے رکھا، اس کے بعد قومی سلامتی کونسل میں اسے رکھا، پھر پارلیمنٹ کمیٹی اور سینئر صحافیوں کے سامنے لائے تاکہ بتائیں کہ اس میں کتنی خوفناک باتیں ہیں، یہ کہتے ہیں کہ عمران خان نے ملک خراب کردیا، مجھے تو ساڑھے تین سال ہوئے ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اتوار کو اس ملک کا فیصلہ ہونے لگا ہے کہ ملک کس طرف جائے گا، قوم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ملک کدھر جائےگا، مجھے کہا گیا کہ استعفیٰ دے دیں، میں آخری گیند تک مقابلہ کرتا ہوں ، ہار نہیں مانوں گا، دیکھنا چاہتا ہوں کہ کون جا کر اپنے ضمیرکا فیصلہ کرتا ہے، اگر کسی کو ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا تو استعفیٰ دیتے، ہم نوجوانوں کو آج کیا پیغام دے رہے ہیں، الٹا بھی لٹک جائیں تو کوئی نہیں مانےگا کہ یہ تین لوگ کوئی نظریاتی ہیں۔منحرف ارکان کو وزیراعظم نے کہاکہ ہمیشہ کیلئے آپ پر مہر لگ جانی ہے، نا لوگوں نے آپ کو معاف کرنا ہے اور نہ بھولنا ہے، نہ ان کو معاف کرنا ہے جو ہینڈل کررہے ہیں، برصغیر کی تاریخ کیا ہے؟ میر صادق اور میر جعفر کون تھے جنہوں نے انگریزوں کے ساتھ مل کر اپنی قوم کو غلام بنایا، یہ موجودہ دور کے میر جعفر اور میر صادق ہیں، آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی، اگر آپ کا خیال ہے کہ اس سازش کو کامیاب ہونے دیں تو سامنے کھڑا ہوں گا، مجھے امید ہے کہ سندھ ہاؤس میں موجود ہمارے لوگ ضمیر کے مطابق فیصلہ کریں گے ورنہ قوم آپ کو معاف نہیں کرے گی، میں خاموش نہیں بیٹھوں گا، مجھے پرچی یا وراثت میں وزارت نہیں ملی، میں جدوجہد کرکے یہاں پہنچا ہوں، مقابلہ کروں گا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم عمران خان کی زبان پھسل گئی۔۔ دھمکی آمیز خط لکھنے والے ملک کا نام بتا دیا